حضرت مفتی شاہ محمد محمود الوری رحم اللہ علیہ


قطب وقت حضرت شاہ مفتی محمد محمود الوری رحم اللہ علیہ کا ہندوپاک کے مقتدر علما اور عظیم روحانی بزرگوں میں شمار ہوتا ہے آپ کی ولادت جمعہ کی شب ھ مطابق1904 کو ہندوستان کی ریاست الورمیں ہوئی آپ کے والد گرامی حضرت خواجہ شاہ رکن الدین الوری رحم اللہ علیہ اپنے وقت کے ولی کامل تھے آپ کے متعلق مشہور تھا کہ آپ کی نظر جس غیر مسلم پر پڑھ جاتی تھی وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجاتا تھااور اردوزبان میں فقہ کی پہلی کتاب رکن دین کو اللہ تعالی نے جو مقبولیت عطا فرمائی وہ آپ کی علمیت مند اخلاص اور بارگاہ خداوندی میں مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔آپ نے اجمیر شریف،دھلی،اور بھوپال کی علمی درسگاہوں میں وقت کے کامل اساتذہ سے مکمل علوم دینیہ اور طب و حکمت کی تعلیم حاصل کی اور اپنے والد گرامی سے بیعت ہو کر اپنی روحانی اور باطنی علوم کی تکمیل کی اور انہی سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ،قادریہ،چشتیہ میں اجازت و خلافت حاصل کی۔آپ اخلاق مصطفوی کا مکمل نمونہ تھے متانت سادگی،قناعت پسندی،امانت داری تقوی و پرہیزگاری تواضع و انکساری،مہمان نوازی،نفاست پسندی غربا پروری شگفتہ مزاجی، راست گفتاری آپ کی امتیازی خصوصیات تھیں آپ کی  استغنا وبے نیازی آپ کا طرہء امتیاز تھی پاکستان کی عدالت عالیہ کے جج جسٹسخمیسانی جو آپ سے بہت عقیدت 
اورمحبت رکھتے تھے انہوں نے ایک دن آپ سے گزارش کی کہ آپ اجازت دیں کہ آپ کے کمرہ کی پیمائش کر کے اس کے ناپ کا ایک قالین بنوا کر آپ کی خدمت میں پیش کروں لیکن آپ نے فرمایا کہ ہم تو اسی بوریہ میں خوش ہیں یہ دنیاوی زیب و زینت اللہ آپ کو مبارک کرے۔ملک کی معروف   ومشہور سندھ ٹینڈریزکے مالک حاجی محبوب الہی نے کئی بار عرض کیا کہ فریج ائیر کنڈیشنر آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن آپ نے ہر بارمنع فرمادیا آپ کے ایک اور مرید صادق فتح ٹیکسٹائل ملز کے مالک الحاج سیٹھ ولی محمد اکبرجی نے آپ کے دست مبارک سے راجپوتانہ ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھوایا اور آپ کی دعاں سے الحمدللہ وہ حیدرآبادکا ایسا کامیاب ہسپتال بنا کہ جب اس کے افتتاح کیلئے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو آئے تووہ بھی اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے وہ ولی سیٹھ اکثر کہا کرتے تھے کہ آج کے دور میں مجھ جیسا شخص اگر کسی کا مرید ہو جائے تو وہ پیر اس کامرید بن جاتا ہے اور مرید اس کا پیر بن جاتا ہے لیکن میرا مرشد ایسا بے نیاز ہے کہ اس نے آج تک کبھی میرے گھر کا رخ بھی نہیں کیا۔آپ ہندوستان سے ہجرت فرما کر 1947 میں جب حیدرآباد تشریف لائے تو آپ نے یہاں آزاد میدان کے نام سے ایک وسیع وعریض میدان میں نماز باجماعت اور تعمیر مسجد کا آغاز فرمایا اللہ تعالی نے آپ کے مرید خاص حاجی محبوب الہی مرحوم کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ انہوں نے اپنی جیب خاص سے حیدرآباد کی سب سے بڑی مسجد اور اس کے تینوں اطراف رکن الاسلام جامعہ مجددیہ کے نام سے ایک عظیم الشان دینی درسگاہ تعمیر کی جہاں حضرت شاہ مفتی محمد محمود الوری رحم اللہ علیہ خود تفسیر و حدیث کا درس دیا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ طلبا کی روحانی اور اخلاقی تربیت بھی فرمایا کرتے تھے آپ کی اس علمی یادگار سے ہزارہاطلبا فیض پا کرپاکستان کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں یہ آپ ہی کا فیض ہے کہ اس جامعہ میں دینی دنیوی اور علوم اسلامیہ و عصریہ کی تعلیم دی جارہی ہے جس کو دیکھتے ہوئے دنیائے اسلام کی سب سے قدیم اور سب سے عظیم اسلامی یونیورسٹی جامع ازھر نے یہاں پڑھنے والے طلبا کو خصوصی مراعات دی ہیں اور جامع ازھر کی سند حاصل کرنے کیلئے خصوصی سہولتیں فراہم کی ہیں۔آپ نے جہاں اس دارالعلوم کے ذریعہ علمی فیض عام کیا وہاں تبلیغی دورے فرما کر ہزارہا بندگان خدا کو راہ ہدایت پر گامزن کیا۔آج اندون ملک اور بیرون ملک آپ کے ہزاروں شاگرد اور مریدین اپنے دلوں کو عشق مصطفے ﷺاور اپنی زندگیوں کو اتباع مصطفیﷺکی تابانیوں سے روشن کر کے بندگان خدا کو بھی اس نور سے منور کررہے ہیں آپ نے حیدرآباد کے علاوہ پنجاب میں بھی دینی درسگاہیں قائم فرمائیں جہاں قرآن پاک،حفظ و ناظرہ اور تجوید کے علاوہ تفسیر وحدیث فقہ علوم عصریہ کے ساتھ ساتھ مکمل تعلیم دی جارہی ہے انہی مدارس 
کی نگرانی اور پنجاب کے مریدین کی اصلاح کیلئے اپنے تبلیغی پروگراموں کے سلسلہ میں آپ پنجاب تشریف لے گئے اور وہیں شعبان المعظمھ مطابق اپریل محمودآباد (گھنیاکے)ضلع قصور میں آپ نے رحلت فرمائی آپ کے جسد مبارک کو حیدرآباد لا یا گیا یہیں آپ کی نماز جناہ ہوئی راجپوتانہ ہسپتال کے قریب آپ کا مزار مبارک ہے جہاں صبح و شام اللہ کی رحمتیں برستی ہیں اور انکے صدقہ میں اللہ تعالی حاجت مندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے اورزائرین کی مشکلیں آسان فرماتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن