پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی یکم مارچ تک کی کاٹن اعداد وشمار کی رپورٹ کے مطابق 7441833گانٹھ کی پیداوار ہوئی ہے یعنی کاٹن سیزن 2021-22ء کی ٹوٹل پیداوار 75لاکھ بیلز بھی نہیں ہے اور وہ جو سیزن کے شروع میں 90 لاکھ اور 95لاکھ کے تخمینے تھے وہ ہوا میں اُڑگئے حالانکہ فصل اچھی تھی پھر پیداوار اتنی کم کیسے ہوگئی؟ اس وقت ایک رائے کے مطابق پاکستان میں کیونکہ کاٹن ریسرچ پر پیسہ ہی خرچ نہیں ہوا جس کی وجہ موٹے بنولہ والی کاٹن ورائٹیز لگیں جن میں روئی کی مقدار بہت کم تھیں جن کاٹن جنرز نے یہ موٹے بنولہ والی کپاس جننگ کی ہے وہ بہتر بتا سکتے ہیں کہ ایسی ورائٹیز میں سے 11فیصد موائسچر اور 8 سے 9 فیصد ٹریش کے ساتھ 12 کلو کون بھی مشکل سے آیا ہے۔ اب اگر ہم اسے انٹرنیشنل لیول کی جننگ سے دیکھیں 40 کلو کپاس میں 8 سے 9 کلو روئی، یعنی 100 کلو میں سے 21 یا 22 کلو، 22 فیصد روئی اور 78 فیصد بنولہ وغیرہ اور اگر اگلے سیزن 2022-23 ء میں بھی یہی صورتحال ہے تو پاکستان میں ایک کروڑ پلس گانٹھ پیداوار کا ہدف خواب ہی رہے گا۔ دنیا میں 100 کلو کپاس میں سے کم ازکم 40 کلو روئی ہوتی ہے مطلب 40 فیصد روئی والی کپاس ہی دنیا میں آئیڈیل سمجھی جاتی ہے پاکستان میں کیونکہ باوا آدم ہی نرالہ ہے اس لئے یہاں سیڈ کمپنیوں سے اور کاشتکار تک ایک ہی آواز ہے موٹے بنولہ والی ورائٹی لگانی ہے ۔اس وقت جو کاشتکار موٹے بنولہ والی ورائٹی لگا رہے ہیں وہ نہ لگائیں وہ نقصان کریں گے کیونکہ اس وقت پوری دنیا میں کاٹن کی بیجائی زیادہ ہو رہی ہے جس کی وجہ سے کاٹن سیزن-23 2022 ء کا رنگ ہی الگ ہو گا اور خاص طور پر پاکستان کا کاٹن جننگ سیکٹر ممکن ہے سیزن-23 2022 ء میں موٹے بنولہ والی کپاس کا وہ ریٹ نہ دے سکے جو رواں سیزن میں کاشتکار کو ملا ہے۔ پاکستان کی سیڈ کمپنیوں کو پابند کیا جانا ضروری ہے کہ وہ اپنے سیڈ بیگ پر لکھیں کہ اس ورائٹی کے ریشہ کی لمبائی کم سے کم اتنی اور زیادہ سے زیادہ اتنی ہوگی ، اس سیڈ کی کپاس میں روئی کی مقدار کا تناسب کیا ہو گا تاکہ کاشتکار کو پتہ ہو کہ وہ کیا اُگا رہا ہے اور اسے کیا ریٹ ملنا چاہئے۔
ماضی میں بھی موٹے بنولہ والی کپاس ورائٹیز کی وجہ سے کاشتکار کپاس سے بددل ہوا تھا اور اس سال بھی ایسا ہی ہوگا حکومت نے جو کاٹن اتھارٹی بنائی ہے ابھی تک اس کی سمجھ نہیںآ رہی کیونکہسیزن 2022-23 کی کپاس بیجائی شروع ہے مگر کاٹن اتھارٹی کی جانب سے کوئی روڈ میپ اور پالیسی سامنے نہیں آئی حالانکہ کاٹن کے کاشتکاروں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ انہیں معیاری سیڈ امپورٹ کر کے دیا جائے کیونکہ ملکی سطح پر ابھی تک ایسا کوئی کاٹن سیڈ متعارف نہیں کرایا گیا جو پاکستانی کاٹن کی پہچان ہو جیسے امریکہ میں پیما کاٹن، مصر کی غزہ 86 ہے اور انڈیا کی شنکر 6 ہے پاکستان میں نہ کاٹن زونگ ہے اور ہی نہ سیڈ زونگ ۔کاٹن اتھارٹی فوری طور پر سیڈ کمپنیوں کو پابند کر سکتی ہے کہ وہ اپنے سیڈ بیگز پر اپنی ورائٹی کے متعلق تمام تفصیلات لکھیں ۔پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی وجہ سے آج پاکستان کی سالانہ ایکسپورٹ 32ارب ڈالرز کو چھونے جا رہی ہے اور اس ٹیکسٹائل کے اہم خام مال کاٹن پر حکومتی پالیسی واضع نہیں ہے یہ جو اپٹما کی جانب سے حکومت کو کہا جا رہا ہے کہ وہ مصنوعی فائبرز جیسے پولسٹر،وسکوس،ٹینسل بنانے کیلئے نئے کارخانے لگانے کیلئے کم مارک اپ پر قرض فراہم کرے ۔اس کے پس پردہ حقیقت یہ ہے کہ اپٹما کا خیال ہے کہ پاکستان میں کاٹن کو بیس کر کے اب ٹیکسٹائل سیکٹر کو چلانا مشکل ہوچکا ہے ۔ہر نئے دن دنیا جدت کی جانب قدم بڑھاتی ہے ہم یا تو پیچھے جا رہے ہیں یا پھر اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں چار دہائی پہلے کھڑے تھے۔ جننگ سیکٹر 80 کی دہائی کا جبکہ کپاس سیڈز 70 کے دہائی والے جبکہ ملک کی حالت یہ ہے کہ بچے بچے کو پتہ ہے پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر حکومت کی سب سے کم توجہ زراعت پر ہے ۔اب جبکہ کپاس کی فصل ، (جس کے ملٹی پل فائدے ہیں) سے نکلنے والی روئی لباس بنانے میں استعمال ہوتی ہے اور آج پوری دنیا میں سب سے مہنگے ملبوسات کاٹن کے ہیں دوسرا کاٹن سیڈ کا تیل خوردنی ضرورت پوری کرتا ہے ۔کاٹن سیڈ آئل سے گھی اور تیل تیار ہوتا ہے جبکہ کاٹن سیڈ کا جو حصہ تیل نکالنے کے بعد بچ جاتا ہے اسے کھل کہتے ہیں اور کھل بنولہ اس وقت پاکستان کے دودھ دینے والے جانوروں کی بہترین خوراک تصور ہوتی ہے ۔کھل بنولہ کھانے والا جانور دودھ بھی زیادہ دیتا ہے اور اس دودھ میں مکھن کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ اب اتنی اہم فصل کپاس پر توجہ نہ دینا نااہلی ظاہر کرتا ہے پاکستان میں دو کروڑ کاٹن بیلز پیدا ہونا ملکی جی ڈی پی کو دو سے تین سالوں میں ڈبل کر سکتا ہے۔ دنیا کے مالیاتی اداروں سے قرض لینے اور دوست ممالک سے بھیک مانگنے کی بجائے کاٹن پر توجہ دینا ہو گی تاکہ پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہو۔