1953ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت کے قائد اورجمعیت علمائے پاکستان کے بانی صدر علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادریؒ کا شمار ان اکابرین میں ہوتا ہے جنہوں نے مسلمانانِ برصغیر کی بروقت دینی و سیاسی رہنمائی کی۔ تحریک پاکستان، تحریک ختم نبوت اور تحریک آزادی کشمیر میں قائدانہ خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے تفسیر الحسنات کے علاوہ متعدد کتب بھی تصنیف کیں جو بہترین علمی ، ادبی اور تحقیقی شاہکار ہیں۔ان کی خدمات نصف صدی پر محیط ہیں۔ علامہ سید ابوالحسنات ؒ کا تعلق مشہد کے سادات خانوادے سے ہے۔ آپ کے والد مولانا سیددیدار علی شاہ عظیم محدث اور مفسر تھے۔آپ کا خاندان مشہد سے ہجرت کرکے ریاست الور میں وارد ہوا۔آپ 1896ء میں محلہ نواب پورہ الور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ 12سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ اردو، عربی اور فارسی میں مہارت حاصل کی۔ پھر تمام علوم و فنون اپنے والد مولانا سید دیدار علی شاہؒ، مولانا شاہ فضل الرحمنگنج مراد آبادی ؒ اور امام احمد رضا خان بریلوی ؒ سے حاصل کیے۔ جبکہ شیخ المشائخ حضرت شاہ علی حسین اشرفی سجادہ نشین کچھوچھہ شریف (ضلع فیض آباد، بھارت) سے خلافت و اجازت حاصل تھی۔1926ء میں آپ اہالیان لاہور کی درخواست پر لاہور تشریف لائے اور تاریخی مسجد وزیر خان کی خطابت کے فرائض سنبھالے اور تادم زیست اس منصب پر فائز رہے۔ اہلیان لاہور کے علاوہ دور دراز علاقوں سے عوام و خواص مسجد وزیر خان پہنچتے اور آپ کے سحر خطابت سے مسحور ہوتے۔ ہزار وں غیرمسلم آپ کے دست حق پرست پر دولت اسلام سے مالا مال ہوئے۔
1936ء میںعلمائے پنجاب میں سب سے پہلے آپ ہی نے مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کیا۔ 1940ء میں جب منٹو پارک (اقبال پارک) لاہور میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تو آپ اس جلسہ کے سرگرم کارکنوں میں سے تھے۔ آپ نے قائداعظم ؒ سے ملاقات کرکے نظریہ پاکستان کی حمایت میں قلمی محاذ سنبھالا۔ آپ نے قائداعظم محمد علی جناحؒ،امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ؒاور پیر صاحب مانکی شریف ؒ کے ساتھ مل کر ملک گیر دورے کرکے عوام کو نظریہ پاکستان سے روشناس کیا اور پاکستان کی حمایت کا جذبہ پیدا کیا۔1945ء میں فریضہ حج ادا کرنے کے لیے سعودی عرب تشریف لے گئے۔ تو وہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے علماء اور حج وفود کے اجتماعات میں تحریک پاکستان کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور علمائے اسلام کو قرار داد پاکستان کے نظریات پر متفق کرکے عملی تعاون پر آمادہ کیا۔5اگست 1945ء کے روزنامہ ’’احسان‘‘ لاہور میں ’’مسلم لیگ کے حامی علماء کی تنظیم کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے آپ کا ایک بیان شائع ہوا جس سے مسلم لیگ کو زبردست تقویت ملی۔ 14تا16ستمبر 1945ء دارالعلوم مرکزی انجمن حزب الاحناف ہند لاہور کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہندوستان و پنجاب کے اکابر علماء اہلسنت کا اجتماع ہوا۔ اس اجلاس کے بعد مولانا ابوالحسنات نے مسلم لیگ کا پیغام قریہ قریہ پہنچانے کیلئے بے شمار دورے کیے اور جلسوں کے ذریعے مسلم لیگ کے پیغام کو ہردل کی دھڑکن بنادیا۔ جنوری 1946ء کو جمیعت علماء پنجاب کی طرف سے اسلامیہ کالج لاہور کی گرائونڈ میں معروف مسلم لیگی رہنما چوہدری عبدالکریم (جن کے نام سے عبدالکریم روڈ منسوب ہے) نے قلعہ گوجر سنگھ لاہور میں ایک علماء و مشائخ کانفرنس بلائی جس کی صدارت حضرت امیر ملت نے فرمائی۔اسی سال ہی ہندوئوں نے ایک منظم سازش کے تحت ’’ہندو مسلم بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ لگایا تو آپ نے اس سازش کو بھانپ لیا اور کہا ’’مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور سیاست و ثقافت علیحدہ ہے اس لیے مسلمانوں کے امتیازی نظریہ حیات اور ہندوئوں کے علیحدہ اصول حیات کی بناء پر ’’ہندو مسلم بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ ہی غلط اور باطل ہے‘‘۔علامہ سید ابوالحسنات قادریؒ نے اپریل 1946ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا اور واپس آکر پنجاب کے کونے کونے میں مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا۔ خضروزارت نے پابندیاں لگا کر روکنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔جنوری 1947ء میں خضر وزارت کے خلاف تحریک سول نافرمانی چلی تو اس میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قید و بند کی صعوبتوں سے نبردآزما ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد 1948ء میں مدرسہ عربیہ انوار العلوم ملتان میں پاکستان بھر کے علماء و مشائخ کا ایک نمائندہ اجتماع ہوا۔ اس اجتماع میں ’’جمیعت علمائے پاکستان‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس کے آپ پہلے صدراور علامہ سید احمد سعید کاظمی ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ 1948ء میں جب آزادی کشمیر کی تحریک شروع ہوئی تو آپ نے سب سے پہلے جمعیت علمائے پاکستان کی جانب سے حمایت کی اور جہادکشمیر کے حق میں متفقہ فتویٰ جاری کیا۔ اس کے بعدآپ نے موچی گیٹ لاہور میں ایک عظیم الشان کشمیر کانفرنس منعقد کی۔ جس میں صدر آزادکشمیر سردارمحمدابراہیم خان اور سید علی احمد شاہ بھی شریک ہوئے اور انہی کے ایماء پر مجاہدین کشمیر کی اعانت کیلئے لاکھوں روپے کا سامان جمع کیا گیااور کشمیر کے محاذ پر جاکر عملی طور پر حصہ لیا۔انہی خدمات کی بدولت آپ کو غازی کشمیر کا خطاب دیا گیا۔
18جنوری 1953ء کو آل پارٹیز مسلم کنونشن میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس میں مختلف مکاتب فکر کے جیدعلماء سید عطاء اللہ شاہ بخاری، سید دائود غزنوی اور سید مظفر علی شمسی سمیت دیگر مذہبی دینی جماعتوں کے قائدین نے آپ کو متفقہ طور پر مجلس عمل تحریک تحفظ ختم نبوت کا صدر نامزد کیا۔ مجلس عاملہ کے اسی کنونشن میں طے پایا کہ اس وقت کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین سے مطالبہ کیا جائے کہ قادیانیوں کو سرکاری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور وزیر خارجہ ظفراللہ خان سمیت کلیدی عہدوں پر فائز مرزائیوں کو فی الفور برطرف کیا جائے ورنہ سول نافرمانی کی تحریک کاآغاز کردیا جائے گا ۔ علامہ ابوالحسنات قادری کی زیرقیادت اس وفد میں مولانا عبدالحامد بدایونی ؒ ، صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ، مولانا محمد بخش مسلم بی اے، مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی ، مولانا مرتضیٰ احمد خان میکش، مولانا احتشام الحق تھانوی، شیخ حسام الدین، ماسٹر تاج الدین انصاری و دیگر اکابرین موجود تھے۔اس تحریک کے دوران آپ نے ملک کے طول و عرض کے دورے کیے۔ تحریک کی قیادت کرتے ہوئے 26اور 27 فروری 1953ء کی درمیانی شب 3بجے دیگر علماء کے ہمراہ آپ کو گرفتار کیا گیااورایک سال کی سزا سنائی گئی۔ اس کے بعد آپ کو حیدرآباد اور پھر سکھر سنٹرل جیل منتقل کردیا گیا۔ جہاں اس وقت درجہ حرارت 50 ڈگری تھا۔پھر دیگر قائدین کے ہمراہ 8 مربع فٹ کی ایک کوٹھڑی میں رکھا گیا۔بعد ازاں سکھر سنٹرل جیل سے لاہور منتقل کردیا گیا۔ جہاں انہیں تحقیقاتی عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔ آپ کی گرفتاری کے بعد آپ کے فرزند سید خلیل احمد قادری نے تحریک کی قیادت سنبھالی۔ لیکن پنجاب حکومت نے انہیں بھی مسجد وزیرخان سے گرفتار کرکے شاہی قلعہ لاہورکے عقوبت خانے (ٹارچر سیل) میں بند کردیا۔ جیل میں مولانا کو جب یہ اطلاع دی گئی کہ ان کے اکلوتے فرزند کو تحریک ختم نبوت میں سرگرم حصہ لینے کی بنیاد پر سزائے موت سنادی گئی ہے تو مولانا نے نہایت استقامت سے فرمایا ’’جو اللہ کو منظور‘‘ پھردعافرمائی کہ ’’اے اللہ ! میرے خلیل کی قربانی کو قبول فرما‘‘ اس فقرے میں آپ کے صبر و شکر اور استقامت وعزیمت کی پوری جھلک موجود ہے۔ قید وبند کے دوران آپ نے تفسیر الحسنات کے 8پارے اور بقیہ پارے اپنی رہائی کے بعد مکمل کیے۔انہوں نے لکھا کہ کہ لاہور میں ہائی کورٹ نے ہماری نظربندی کو حبس بے جا قرار دے کر ہم کو بمعہ رفقاء رہا کردیا۔ رہائی کے بعد بھی اس فریضہ کو جاری رکھا اور باوجود پریشانیوں کے الحمدللہ قرآن کی تفسیر مکمل کرچکا ہوں۔ بارگاہ ایزدی میں دعا ہوں کہ مولا کریم اپنے محبوب رسول کریمؐ کے طفیل اس کام کو قبول اور مقبول عام فرمائے۔‘‘علامہ سید ابوالحسنات قادری ؒ نے انتقال سے دو روز پہلے تفسیر الحسنات مکمل فرمائی۔ صبر و استقامت کے اس پیکر جمیل نے 2شعبان المعظم 1380ھ ( 20جنوری 1961ء بروزجمعۃ المبارک 12بجے دن داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ سے بے پناہ عقیدت و محبت اورکے مطابق آپ کو داتا صاحب کے مزار پُرانوار کے احاطے میں شرقی جانب سپرد خاک کیا گیا۔
علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادریؒ کی سوانح حیات
Mar 13, 2022