اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے چار روزہ لٹریری فیسٹیول سجایا اور خوب سجایا بلکہ یوں کہیے کہ شہرسے دور بغداد الجدید کیمپس میں مورناچا جسے سب نے دیکھا۔ وائس چانسلر اطہر محبوب کی خصوصی دعوت پر ہم بھی وہاں موجود تھے اور اس منفرد خوبصورت علمی و ادبی اور ثقافتی میلے کا سہرا بھی رئیس الجامعہ ڈاکٹر اطہر محبوب کے سر باندھا جا سکتا ہے جو اس کامیاب فیسٹول کے بعد سب کے محبوب قرار پائے۔ اگرچہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو پنجاب کی اہم جامعات میں شامل کرنے والے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کے کریڈٹ کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ انھوں نے بہاولپور کے ارد گرد کے مضافاتی علاقوں میں ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کر کے وہاں کی ان طالبات کو بھی قومی دھارے میں شریک کر دیا جن کی عدم سہولیات کی وجہ سے یونیورسٹی تک رسائی ممکن نہ تھی۔ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا ازالہ بھی انھوں نے اس صورت کر دیا کہ چار روزہ ادبی و ثقافتی میلے میں انھوں نے پاکستان کی اہم شخصیات کو مدعو کیا۔ فلم، موسیقی، ادب اور میڈیا کے نامور لوگوں نے مکالمے کی سبیل نکال دی سید نور شیما کرمانی خلیل الرحمن قمر اور دیگر اہم شخصیات سے مکالمے کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر کے معروف اور نمائندہ شعراءکرام کے کلام سے بھی بہاولپور کے طلبہ کو روشناس کرایا۔ ’حسبِ حال‘ کے جنید سلیم کی میزبانی اوریا مقبول جان کے ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘ کے ڈائیلاگ اور نواز انجم کے ہنسی کے گول گپوں نے گویا مختلف ذائقوں کی فروٹ چاٹ بنا دی ۔
کمشنر بہاولپور ڈاکٹر احتشام انور نے جہاں اس فیسٹول کی کامیابی میں بھر پور کردار ادا کیا وہاں ان کی بچوں کے لیے لکھی گئی سبز کتاب اور نادرات ملتان سمیت دیگر کئی اہم موضوعات پر مبنی کتب کی تعارفی تقاریب نے بھی اس علمی و ادبی ماحول کو خوب نمایاں کیے رکھا۔ راقم سمیت دیگر ملتانی کالم نگاروں نے بھی اس موقع پر اپنی موجودگی کا ثبوت دیا۔ اس میڈیا کے ڈائیلاگ میں میڈیا کے مثبت اور منفی کردار پر روشنی ڈالی گئی اور میڈیا پر لگائی جانے والی قدغنوں کا بھی ذکر رہا۔ مشاعرے، مکالمے اور پروگرام ’حسبِ حال‘ میں طلبہ کی بھرپور شرکت اور نظم و ضبط دیدنی رہا۔ ڈاکٹر سجاد جام میڈیا کوآرڈینیٹر شہزاد احمد اور مہمانوں کے پروٹوکول کا خیال رکھنے والی ثمر فہد نے بھی حق میزبانی خوب ادا کیا اور آ نے والے مہمانوں کا مسکراہٹوں اور پھولوں سے استقبال کیا ۔ یقینا غیر نصابی سرگرمیاں تعلیمی اداروں اور طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں حبس کے ماحول اور عصر حاضر کی پریشانیوں اور بے یقینی کے موسم میں ایسے پروگرام بہار کا ایک خوشگوار جھونکا ثابت ہو سکتے ہیں، اگر ان میں مقصدیت کو پیش نظر رکھا جائے۔ ہمارے موجودہ دور کے ادبی میلے ٹھیلے اور فیسٹیول اب تفریح سے زیادہ کمرشل اور گروپ بندی کا شکار ہو چکے ہیں، ان میلوں کا لطف اسی وقت اٹھایا جا سکتا ہے جب یہ ان سب چیزوں سے بالاتر ہو کر منعقد کیے جائیں۔
بہاولپور کا لٹریری اور کلچرل فیسٹیول اس لحاظ سے منفرد اور یادگار حیثیت اختیار کر گیا ہے کہ ان چار روزہ تقاریب میں یکسانیت کی بجائے تنوع اور انفرادیت برقرار رکھی گئی۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے اس فیسٹیول کی نہ صرف بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے بلکہ دیگر شہروں سے بھی اس طرح کا میلہ سجانے کے لیے پروگرام کے مختلف اسکرپٹ بطور نمونہ منگوائے جا رہے ہیں اور اس اعزاز اور کارکردگی کے لیے وائس چانسلر اطہر محبوب اور ان کی ٹیم کی کاوشیں رنگ لائی ہیں اور بہاولپور کے نخلستان میں کتابوں کا چمن آباد ہونے اور تہذیب و ثقافت کے احیا کا سامان پیدا کرنے کے اسباب لائق تحسین قرار دیے جا رہے ہیں۔ امید ہے اپنے شہر ملتان اور دیگر تعلیمی اداروں میں بھی اس نوعیت اور انفرادیت کے علمی ، ادبی اور ثقافتی فیسٹیول منعقد کر کے ادھر بھی بہار کے امکانات پیدا کیے جائیں گے جن کی مہک اور تازگی سے بہت سے لوگ مستفید ہو سکیں گے۔
٭....٭....٭