مرحوم جنرل ابو بکر عثمان مٹھا پاکستان آرمی کے بہت قابل ، ذہین اور سخت جان افسروں میں شمار ہوتے تھے۔ خود بھی بہترین کمانڈو تھے اور انھیں پاکستان آرمی کے لیے کمانڈ رگروپ کی بنیادرکھنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ ان کا تعلق بمبئی کی ایک مشہور میمن فیملی سے تھا۔ دوسری جنگ ِعظیم کے دوران انڈین ملٹری اکیڈمی سے کمیشن حاصل کیا اور برٹش انڈین آرمی کی مشہور یونٹ بومبے گرینیڈ یرز (Bombay Grenadiers) کے ساتھ منسلک ہوئے۔ پاکستان بننے سے پہلے زیادہ تر برٹش آفیسر ز کے ساتھ سروس کی اور ہندو سپاہیوں کو کمان کرتے رہے۔ اپنی خوشی سے پاکستان آئے جبکہ فیملی بمبئی میں رہی۔ لبرل مسلمان تھے۔ تمام مذاہب اور تمام فرقوں کا احترام کرتے۔ 1971ءکی جنگ میں بہت مشہور ہوئے۔
جنرل مٹھا سخت جان ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ادب سے بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ اس لیے وسیع ذہن اور عمیق سوچ کے مالک تھے۔ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت سیکولر ماحول میں ہوئی۔ ہندو ماحول اور ہندو سوچ سے بھی قریبی رابطہ رہا۔ابتدائی تعلیم ایک انگریزی سکول اور بعد میں شیوا جی ملٹری سکول پونا سے حاصل کی جو کہ ایک مشہور کیڈٹ سکول تھا۔ جنرل مٹھانے اپنی سوانح عمری Unlikely Beginnings کے نام سے لکھی جو اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے 2003ءمیں شائع کی۔ اس کتاب کو بہترین سوانح عمری کا اعزاز بھی مل چکا ہے۔ لبرل مسلمان ہونے کے باوجود اس کے زیر کمان ہندو سپاہیوں نے اسے قبول نہ کیا۔ جنرل صاحب نے اپنی سوانح عمری میں ہندو ذہن کی بہت اچھی عکاسی کی ہے اور یہ ہندو رویہ ہی تھا جس وجہ سے انھوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا حالانکہ وہ ہندوستان فوج میں رہنے کے لیے اپنی خواہش کا اظہار تحریری طور پر کر چکے تھے اور کئی ایک سینئر بھارتی فوجی افسران سے ان کے خاندانی روابط بھی تھے۔ ہندو رویے کے دو واقعات نے ان کی سوچ تبدیل کر دی جو قارئین کے پیش نظر ہیں:
پہلا واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ بطور کپتان موجودہ اوجڑی کیمپ راولپنڈی میں ایک پیرایونٹ میں سروس کر رہے تھے۔ ایک دن وہ شام کے وقت یونٹ کا چکر لگا ر ہے تھے کہ ان کا گزر ایک گڑھوال ہندو کمپنی کے لنگر کے نزدیک سے ہوا، کھانے کا معیار دیکھنے کے لیے وہ لنگر کے اندر چلے گئے اور لنگر انچارج کو کھانا ٹیسٹ کرانے کے لیے کہا۔ ایسا کرنا فوج کی عام روایت بھی ہے اور کمانڈر کے لیے ضروری بھی، لہٰذا کھانا پیش کیا گیا۔ کیپٹن مٹھا نے دو لقمے لیے اور کھانا واپس کر دیا۔ ساتھ کھڑے ہوئے ہند و جمعدار نے کیپٹن مٹھا کے سامنے ہی لنگر انچارج کو ٹیسٹ سے بچا کھانا ضائع کرنے کا حکم دیا۔ مٹھا نے حیران ہو کر پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ جمعدار نے بغیر کسی جھجک کے جواب دیا کہ’آپ مسلمان ہیں اور آپ کے لنگر کے اندر آنے اور کھانا ٹیسٹ کرنے سے لنگر اور کھانا دونوں نا پاک ہو گئے ہیں۔‘ مٹھانے بہت محسوس کیا۔ وہ اسی وقت کمانڈنگ آفیسر کے پاس گیا جو ایک انگریز تھا اور اسے سارا واقعہ سنایا۔ ساتھ پوچھا کہ اگر انگریز آفیسر کے ٹیسٹ کرنے سے لنگر اور کھانا ناپاک نہیں ہوتے تو ایک مسلمان آفیسر کے اندر جانے اور کھانا چکھنے سے یہ سب کیسے ناپاک ہو گئے ؟ کمانڈنگ آفیسر سمجھدار آدمی تھا اس نے فوری طور پر متعلقہ جمعدار کو تبدیل کر کے سنٹر بھیج دیا اور یوں ایک مسلمان کپتان کی عزت بچ گئی ورنہ اسے اپنی وقعت کا اندازہ تو ہو ہی گیا تھا۔
دوسرا واقعہ 1947ءمیں تقسیمِ ہند کے وقت پیش آیا۔ موصوف اس وقت جی ایچ کیو دہلی میں تعینات تھے۔ شہر میں فسادات پھوٹ پڑے۔ ایک دن میجر مٹھا اور ان کے ایک دوست نے شہر جا کر حالات دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں دہلی سے ناواقف تھے، لہٰذا ایسے ہی جدھر دل چاہا چل پڑے۔ ایک طرف سے دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ ادھر چلے گئے۔ وہاں ہر طرف آگ لگی تھی۔ لوگوں کو مکانوں کی چھتوں پر اپنے مختلف ہتھیاروں کے ساتھ مورچہ زن پایا یہ کوئی اندرونِ شہر گلیوں اور گھنی آبادی والی جگہ تھی۔ بعد میں پتا چلا کہ سبزی منڈی ہے۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو سامنے ایک سٹاف کار آکر رکی۔ اس میں سے جنرل کری آپا اترا ( جو بعد میں آزاد ہندوستانی فوج کا پہلا کمانڈر انچیف بنا) جنرل کری آپا نے ان لوگوں سے وہاں کھڑے ہونے کہ وجہ پوچھی جو بتائی گئی۔ جنرل صاحب نے حکم دیا کہ وہ لوگ وہیں ٹھہریں اور وہ خود واپس جا کر کچھ جوان بھیج دے گا تا کہ حالات قابو میں لائے جاسکیں۔ بہر حال تھوڑی ہی دیر بعد جوانوں کی ایک پلاٹون وہاں پہنچی۔ مٹھا کو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہ اس کی اپنی رجمنٹ کے جوان تھے۔ اتنی دیر میں ہندو اور مسلمانوں نے مل کر وہاں سے لاشیں اٹھانے کی اجازت مانگی۔ دونوں نو جوان آفیسر ز کو محسوس ہوا کہ لاشیں واپس گھروں میں جانے سے حالات اور خراب ہو سکتے ہیں، لہٰذا فیصلہ ہوا کہ یہ لاشیں فوج یہاں سے باہر لے جائے گی۔ شہر سے باہر جا کر فوج کی موجودگی میں انھیں جلائیں یا دفن کریں۔ میجر مٹھانے جوانوں کے ساتھ مل کر لاشیں اٹھا اٹھا کر گاڑی میں رکھنی شروع کیں۔ تھوڑی دیر بعد مٹھا نے دیکھا کہ کچھ جوان بالکل علیحدہ کھڑے ہیں اور لاشوں کو ہاتھ نہیں لگا رہے۔ مٹھانے وجہ پوچھی تو سیکشن انچارج جمعدار نے بتایا کہ چونکہ وہ ہندو ہیں، لہٰذا وہ مسلمان لاش کو قطعا ًہاتھ نہیں لگائیں گے۔ اس سے وہ ناپاک ہو جائیں گے۔ مٹھانے بہت محسوس کیا۔ جمعدار کو زیر حراست لے کر واپس بھیج دیا اور پھر واپس آکر جی ایچ کیو میں پہلا کام یہ کیا کہ ہندوستان میں رہنے کی خواہش بدل کر پاکستان کے لیے دستخط کر دیے۔
یہ ایک لبرل مسلمان کا ردعمل تھا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ پاکستان مسلمانوں نے نہیں بلکہ ہندوو¿ں کی ہٹ دھرمی نے بنایا۔ فوج وہ ادارہ ہے جس میں ہر مذہب، ہر فرقے، ہر علاقے اور ہر زبان کے لوگ بھائیوں کی طرح اپنی ذاتیات سے بالا تر ہو کر مل کر کام کرتے ہیں۔ اگر فوج میں بھی اور وہ بھی اپنی ہی یونٹ کے سپاہی اپنے افسر کے خلاف ایسا رویہ اپنا ئیں تو عام معاشرتی حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مسلمان اور ہندو ہزار سال اکٹھے رہ کر بھی ایک معاشرہ نہ بنا سکے۔ ہٹ دھرمی اور منفی ردعمل ہمیشہ ہندوو¿ں کی طرف سے سامنے آتا رہا اور بالآخر مسلمان علیحدہ ہونے پر مجبور ہو گئے۔ اب جبکہ ہم ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہماری نوجوان نسل تاریخ کے اصل واقعات سے نابلد ہے، وہ صرف ہندوستانی فلموں سے متاثر ہو کر ہندوستان کو آئیڈیل ملک اور آئیڈیل معاشرہ سمجھنے لگی ہے۔ انھیں پتا ہونا چاہیے کہ مسلمان ہندوو¿ں کے لیے آج بھی وہی کچھ ہیں جو 1947ءمیں تھے۔ بال ٹھاکرے اور نریندر مودی جیسے لوگ ہندو معاشرے میں ہمیشہ بااثر اور طاقتور رہے ہیں اور ان لوگوں کی سوچ کی بنیاد ہی مسلمانوں سے نفرت ہے۔ مسلمانوں کا خون بہانے میں ہی یہ لوگ اپنی مذہبی نجات سمجھتے ہیں۔پاکستان پائندہ باد!
٭....٭....٭