محمد عمران الحق
بیانیہ
ہمارے دوست کالم نگار صحافی آصف محمود نے چند روز قبل اپنے موقر اخبار میں کالم لکھا ہے اور اس میں جماعت اسلامی کے بیانیہ اور اس کے موجودہ سیاسی کردار کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں؟ ہمارے خیال میں فاضل کالم نگار نے جماعت کے حوالے سے درست تجزیہ نہیں کیا اور اپنے کالم میں حقائق سے دانستہ گریز کرتے ہوئے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا موجودہ سیاسی منظر نامے میں بیانیہ واضح اور دوٹوک ہے۔جماعت اسلامی ملک میں ہوشربا مہنگائی، معیشت کی دگرگوں صورتحال اور عام آدمی کی مشکلات کا ذمہ دار پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کو قرار دیتی ہے۔ اسی طرح کرپشن فری پاکستان کے لیے بھی موجودہ اور ماضی کی حکومتوں میں شامل مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کرپٹ افراد کا بلاتفریق احتساب چاہتی ہے جوکہ ان جماعتوں کی قیادت اور ان کے مدح سرائی چند اہل قلم کو قابل قبول نہیں ہے۔ اسی لیے وقتاً فوقتاً وہ جماعت اسلامی کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے چند برسوں سے مسلسل بیانات، تقریروں میں بلا امتیاز احتساب اور کرپٹ افراد سے سیاست کو پاک کرنے کا واضح موقف موجود ہے۔ یہ اور بات ہے کہ تحریک انصاف یا مسلم لیگ ن سے محبت کرنے والے کسی اہل قلم کو یہ پسند نہ ہو اور وہ اپنی خواہش کے مطابق جماعت کا بیانیہ چاہتا ہو مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکتا۔ جماعت اسلامی ایک نظریاتی اور اصولی تحریک ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جماعت نے ہر دور میں ہمیشہ ملک و ملت کے مفاد میں دوٹوک اور واضح موقف اپنایا ہے۔ آج بھی یہ بیانیہ عوامی توقعات کے مطابق، واضح اور حقیقت پر مبنی ہے۔ اس وقت مہنگائی و بیروزگاری کے خلاف سڑکوں پر اگر کوئی پارٹی واقعی موجود ہے اور پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں جلسے جلوس اور ریلیاں کر رہی ہے تو وہ واحد جماعت اسلامی ہی ہے۔ پی ڈی ایم اور تحریک انصاف تو اقتدار کے سرکس کے کھیل میں پاکستانی عوام اور ان کو درپیش سنگین مسائل سے عملاً لاتعلق ہو چکے ہیں۔ ابھی چند روز قبل مہنگائی اور حکومتی نا اہلی و ناکامی کے خلاف جماعت اسلامی نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی قیادت میں لاہور تا راولپنڈی تین روزہ بھرپور" مار گئی مہنگائی مارچ" کیا ہے۔جماعت اسلامی نیکراچی کے حقوق کا مقدمہ بھی کامیابی سے لڑا اور ابھی حال ہی میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا بلدیاتی الیکشن جیتا ہے۔جماعت اسلامی خیبر پختونخوا میں بڑھتی بدامنی کے پیش نظر مسلسل امن مارچ اور دیگر سرگرمیاں کر رہی ہے۔جماعت اسلامی بلوچستان /گوادر کے حقوق کے لیے مسلسل میدان میں سرگرم ہے۔ جماعت اسلامی سینیٹ کی توانا آواز ہے اور اندرون بیرون ملک مظلوموں کے دکھوں کا مداوا کرنے والے اور ملک و قوم کیلیے لڑنے والے سینیٹر مشتاق احمد خان کا کردارپوری قوم کے سامنے ہے۔جماعت اسلامی قومی اسمبلی کے سیشنز میں بھی پلڈاٹ کی جائزہ رپورٹ کے مطابق اپنی کارکردگی اور ایوان کی کارروائی میں شرکت کے اعتبار سے پہلے نمبر پر نمایاں رہی ہے اور مولانا عبدالاکبر چترالی نے سب سے اچھی پارلیمانی کارکردگی دکھائی ہے۔ اسی طرح 2013 کی پنجاب اسمبلی میں بھی سابق ایم پی اے اور سابق امیر حب. جماعت اسلامی پنجاب ڈاکٹر سید وسیم اختر کی پانج سالہ پارلیمانی کارکردگی متاثر کن اور مثالی تھی۔سینیٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں میں بھی جماعت اسلامی کے نمائندوں نے زیادہ حصہ لیا، بل پیش کیے، قراردادیں، تحاریک پیش کیں۔اس سے ملکی و قومی معاملات میں جماعت اسلامی قیادت کی دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی طرح وفاقی شرعی عدالت میں سود کے خلاف مقدمہ بھی جماعت اسلامی نے لڑا اور جیتا۔ٹرانس جینڈر ایکٹ ہو یا ایسے دیگر موضوعات، این جی اوز کے ذریعے روبہ عمل بیرونی ایجنڈے کے سامنے بھی جماعت اسلامی رکاوٹ ہے۔جماعت اسلامی نے کورونا کے بعد اب سیلاب میں سب سے زیادہ قوم کی خدمت کی ہے اور اب کراچی سے چترال تک میدانوں، صحراؤں اور برف پوش پہاڑوں میں اس کے کارکن جان ہتھیلی پر رکھے خدمت کر رہے ہیں؟موصوف کالم نگار خود فرماتے ہیں کہ اقتدار تو جماعت اسلامی کو کبھی نہ ملا، ہا ں جزوی شراکت اقتدار ضروری رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کراچی، خیبر پختونخواہ، پنجاب اور دیگر علاقوں میں جماعت اسلامی کو بلدیا ت اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی ملی ہے تو جماعت اسلامی نے
ہمیشہ اپنا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں صوبائی وزارت خزانہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے پاس رہی۔عالمی اداروں نے بھی امیر جماعت کی بطور وزیر کارکردگی کا کھلا اعتراف کیا۔ جماعت اسلامی کا بیانیہ بڑا واضح ہے اوروہ یہ ہے کہ پا کستا ن میں فرسودہ نظام کا خاتمہ کرکے اسلامی معاشرہ تشکیل لیاجائے اورعملا َ ریاست مدینہ بنائی جائے۔ یہ جماعت اسلامی کے منشورمیں شامل ہے۔ جس کو بعد میں تحریک انصاف نے اختیار کیا چونکہ ان کے لیے صرف یہ انتخابی ہتھکنڈاتھا اس لیے چار سال برسراقتدار رہنے کے باوجود تحریک انصاف نے ریاست مدینہ کی طرف ایک قدم بھی نہیں ر کھا۔ فاضل کالم نگار کو شاید معلوم نہیں جماعت اسلامی میں مکمل شورایت کا نظام ہے اور اس کی مرکز ی امیر کا انتخاب ہر پا نچ سال بعد ہو تا ہے۔اسی طرح صوبوں اور ضلعوں میں بھی جماعت کی قیادت منتخب ہوکر آتی ہے۔ ان شائ اللہ جماعت اسلامی کا سچائی پر مبنی بیانیہ ہی با لآخر کامیاب ہوگا۔ کرپٹ حکمرانوں اور جماعتوں سے عوام کو نجات ملے گی۔