قاضی عبدالر?ف معینی
خطہ پاک جہاں زرعی لحاظ سے زرخیز ملک ہے وہاں اس کی فضا فتنوں کی پیداوار کے لیے بڑی سازگار ہے۔کوئی دور ایسا نہیں گزرا جب کوئی فتنہ پیدا نہ ہوا ہو۔ایک فتنہ دفن ہوتا ہے تو کئی نئے جنم لے رہے ہوتے ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں وطن فروش، سخن فروش،ایمان فروش اور دین سے بیزار لوگ آسانی سے اور سستے داموں دستیاب ہیں۔پون صدی قبل ہم نے آزادی تو حاصل کر لی لیکن یہ بد قسمت قوم ’’مسٹر برا?نز‘‘ یعنی دیسی گوروں کی غلامی میںچلی گئی۔زبان و ادب، طریقہ تعلیم ، نظام حکومت سب کچھ تودور غلامی کی باقیات میں سے ہیں۔مسلمانوں کا شاندار ماضی تاریخ میں دفن ہوگیا۔ میڈیا کے سخن فروش قومی ہیروز کو زیرو ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔بدقسمتی یہ کہ یہ بد روحیں اپنا ایجنڈا کامیابی سے چلا رہی ہیں اوریہ بھولی قوم ان کے بکواسات کو درست سمجھ بیٹھی ہے۔ عقل سے پیدل یہ دانشور جس تھالی میںکھاتے ہیں اسی میں سوراخ کررہے ہیں۔کبھی تعلیمی نصاب میں مداخلت کے ذریعے ،کبھی مذہبی و اخلاقی اقدار کا مذاق اڑاتے ہیں،کبھی بے حیائی کا ہتھیار اور کبھی سخن فروشی سے رائے عامہ کو گمراہ کرتے ہیں۔ان کی مذموم حرکتوں سے جہاں وطن عزیز میں بے چینی پائی جاتی ہے اور اندرونی خلفشار پیدا ہو رہا ہے وہاں بین الاقوامی سطح پر قوم کی بدنامی ہورہی ہے۔بیرون ملک سفر کرنے والے حضرات کئی بار اس کا بخوبی مشاہدہ کر چکے ہیں۔ملکی سلامتی کے ان اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو ان مذموم حرکتوں سے روکنا چاہیے ورنہ حالات روز بروز خراب ہوتے جائیں گے۔حقیقت تو یہ ہے کہ
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
دور حاضر کے فتنوں میں ’’ خواتین مارچ‘‘ ایک بڑا فتنہ بنتا جا رہاہے۔ہر سال دنیا بھر میں ۸ مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد عالمی سطح پر خواتین کی خدمات کا اعتراف کرنا ، خراج تحسین پیش کرنا اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی بات کرنا ہوتا ہے۔ہر ملک میں اس دن کا ایجنڈا یہی ہے لیکن پاکستان میں خواتین کا ایک طبقہ اس دن کو ہائی جیک کرنے میں کامیاب ہو گیا یوں اس کے مقاصد کچھ اور ہوگئے۔ایسے نعرے معرض وجود میں آئے جن کو پڑھ اور سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔سانحہ یہ ہوا کہ اس دن کی آڑ میں اسلامی نظام حیات پر تنقید کی جانے لگی اور اخلاقی اقدار کا مذاق اڑایا گیا۔یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسلام حقوق نسواں کے حق میں نہیں اور پاکستانی معاشرہ میں خواتین پر ظلم کیاجا رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام عالمگیر مذہب ہے، مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہر فرد کے حقوق کا ضامن ہے۔آج سے چودہ سو سال پہلے جب دنیا میں خواتین کے حقوق کا کسی کو خیال نہیں تھا،اسلام نے عورت کو اس کا اصل مقام دیا۔اس کو غلامی اور استحصال کے بندھنوں سے آزاد کیا۔ان تما م قبیح رسومات کا خاتمہ کیا جو عورت کے مقام کے منافی تھیں۔عورت کی عزت و عصمت کا تحفظ کیا ،میراث میں حصہ دیا ، تعلیم و تربیت کا حق دیا۔ عورت کو مختلف حیثیتوں میں اسلام نے جو حقوق دیے ان کی مثال نہیں ملتی۔واضح رہے کہ عورت کا جو مقام ، عزت اور مرتبہ اسلام میں حاصل ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔یہاں تک کہ
عورت کی عظمت کو حکیم حب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے چند اشعار میں بڑے عمدہ انداز میں بیان فرمایا
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے سازسے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا د ر مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی، لیکن
اس کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
اس میں شک نہیں کہ بعض جگہوں پر عورت کا استحصال ہو رہا ہے، ظلم کیا جاتا ہے،من گھڑت رسومات عورت کے لیے عذاب بنی ہوئی ہیں، وراثت سے محروم بھی رکھا جاتا ہے۔چند افراد کے انفرادی فعل کو بنیاد بنا کر دین متین کے خلاف بکواس کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔دنیا بھر میں اسلامی تعلیمات اور محسن انسانیت ? کی سیرت پاک کے مطالعہ سے بڑی بڑی شخصیات دائرہ اسلام میں داخل ہو رہی ہیں لیکن چند بد بخت گمراہ کن پراپگنڈہ سے نسل نو کی برین واشنگ کر رہے ہیں۔کرہ ارض پر بسنے والی کوئی بھی قوم مذہب کے بنیادی نظریات پر حملہ برداشت نہیں کرتی اور کوئی بھی معاشرہ اخلاقی اقدار کو برباد کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔اگر کسی کو شک ہو تو کسی بھی ملک میں ایسی حرکت کر کے دیکھ لے۔پاکستان واحد ملک ہے جہاں آزادی اظہار رائے کی آڑ میںچند افراد بے لگام ہوتے جا رہے ہیں ملک دشمن بیرونی عناصر اس معاملہ میں ان کا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اس فتنہ کا موثر سدباب ملکی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔