صحابہ کرام کا ذوقِ نماز (۲)


 حضرت ابو عثمان نہدی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں سات راتوں تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مہمان رہا۔میں نے دیکھا کہ آپ، آپ کی اہلیہ اور آپ کا خادم تینوں باری باری اٹھ کر عبادت کیا کرتے تھے، اور اس کے لیے انہوں نے رات کے تین حصے کیے ہوئے تھے۔ (ابو نعیم)
٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک رات میں نماز عشاءکے بعد قدرے تاخیر سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ آپ نے مجھ سے استفسار فرمایا۔کہاں تھیں؟ میںنے عرض کیا:آپ کے ایک صحابی مسجد میں (ادائیگی نفل کرتے ہوئے) قرآن پڑھ رہے تھے۔ میں اسے سن رہی تھی۔ میں نے اس جیسی آواز اور اس جیسا حسن قرا¿ت آپ کے کسی اور صحابی سے نہیں سنا، آپ نے بھی کچھ دیر ان کی تلاوت سماعت فرمائی اور میری جانب متوجہ ہوکر فرمایا۔ یہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ہیں۔
٭تمام تعریفیں اس پاک پروردگار کے لئے ہیں، جس نے میری امت میں ایسے افراد پیدا کئے۔ (حاکم)
٭حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نماز سے بڑی محبت تھی، وہ زیادہ نفلی روزے نہیں رکھتے تھے۔ عام طور پر مہینے میں تین نفلی روزے رکھتے۔ فرماتے، جب روزہ رکھتا ہوں تو کمزوری محسوس ہوتی ہے اس وجہ سے نماز میں کمی ہوجاتی ہے۔ اور مجھے نماز سے زیادہ محبت ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن یزید ؒ کہتے ہیںکہ میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کم روزے رکھنے والا کوئی فقیہ نہیں دیکھا، ان سے وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا مجھے نماز سے زیادہ رغبت ہے۔ 
٭حضرت عبداللہ بن مسعود السابقون الاولون میں سے ہیں مکہ میں غربت کی وجہ سے اجرت پر بکریاں چراتے تھے۔ صحت کے اعتبار سے نحیف ونزار تھے۔ مشرکین مکہ کی زیادتیوں کا خاص نشانہ بھی بنتے۔ اس کے باوجود بڑی تندہی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے۔ جہاد میں سرگرم حصہ لیتے۔ نوافل میں مشغولیت کے علاوہ تحصیل علم اور درس وتدریس سے خصوصی شغف تھا۔ سنت رسول کے ابلاغ میں آپ نے خاص کردار ادا کیا اور بے شمار تلامذہ نے آپ سے اکتسابِ فیض کیا۔ انہیں وجوہات کی بنا پر زیادہ روزہ کی مشقت نہیں اٹھا پاتے تھے۔ لیکن عبدالرحمن بن یزید ؒ کی روایت سے یہ اندازا بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں لوگ فقہا و علماءسے کیسی توقعات رکھتے تھے۔ 
٭حضرت انس قیام سجدہ میں اتنی دیر لگاتے کہ لوگ سمجھتے کہ یہ کچھ بھو ل گئے ہیں۔ (بخاری)

ای پیپر دی نیشن