مفادات کی سیاست کا سوفیصد نقصان عوام کو


گاڑی ایک اور ڈرائیور چار
امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا نوائے وقت کو خصوصی انٹرویو
 حکمران اور دوسری جماعتیں ایکسپوز ہو گئیں ،عوام اب جماعت اسلامی کو موقع دے

ثاقب نثار متنازع چیف جسٹس تھے، انصاف  کے علاوہ تمام کام کر گئے

لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا،پٹرول مافیا، شوگر مل مافیا،سبھی پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کا حصہ ہیں

تصویر کیپشن
عیشہ پیرزداہ ‘ سراج الحق کا انٹرویو لیتے ہوئے، اس موقع پر سراج الحق کی لاڈلی بیٹی فاطمہ بھی  ساتھ ہیں

غریب عوام مشکل وقت کے لیے مزید قربانیاں دینے کے لیے تیار ہو جائے،ملک آئی ایم ایف کے در پر 23 ویں مرتبہ کھڑا  ہے۔ اب قرضہ ملے گا تو ہی ملک چلے گالیکن قرضہ لینے کے لیے غریب عوام کی جیب مزید خالی کی جائے گی۔دوسری جانب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد ایوان اقتدار سے باہر کیے جانے والے عمران خان پچھلے ایک سال سے اپنے تمام سیاسی پتے کھیل چکے ہیں۔اب عدالتوں میں جاری کیسز میں گرفتاری سے بچنے کے لیے مزاحمت جاری ہے۔ ایسے میں کراچی میں ہوئے بلدیاتی انتخابات میںجماعت اسلامی نے یہ چنگاری سلگا دی ہے کہ عوام اب نئی قیادت کی تلاش میں ہے۔ اس کامیابی سے ایک بار پھر جماعت اسلامی شہ سرخیوں کی زینت بنی ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر قیادت ایماندار ہو تو اس کے فالورز اسی جیسی سوچ رکھتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق سے جب ان کی رہائش گاہ پر گزشتہ دنوں  ملاقات ہوئی تو  گفتگو سے جھلکتی متانت، ایماندارانہ سوچ ،سادہ مزاجی، اور درویشی نمایاں تھی۔ ان سے نوائے وقت اشاعت خاص کے لیے خصوصی ملاقات میں ملک کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال پر تفصیلی بات چیت ہوئی جو آج قارئین کی نذر کی جاتی ہے۔
 نوائے وقت:موجودہ ملکی صورتحال کو جماعت اسلامی کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے؟
 سراج الحق:گاڑی ایک ہے اور ڈرائیور چار ہیں۔ اس لیے منزل کی جانب ایک قدم بڑھائیں  تو منزل سے دوری دس قدم ہے ۔جتنے بھی وعدے نعرے من و سلویٰ کے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم نے لگائے تھے سب کھوکھلے نکلے،عوام مہنگائی کے زہر کا نوالا کھا رہے ہیں۔ملک اس وقت لاوارث ہے۔گزشتہ تین سالوں میں اگر ہم خواتین پر تشدد کی بات کریں تو63 ہزار تشدد کے واقعات ہوئے ہیں۔11 ہزار خواتین کی عصمت دری ہوئی۔ 4 ہزار سے زائد خواتین کا قتل ہوا۔ ملک کا عدالتی نظام مکمل طور پر فلاپ ہوچکا ہے۔ ظلم کو پروٹیکشن مل رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک سیاستدان کے گھر کے اندر بنی جیل میں تین سالوں سے ایک خاندان قید تھا، ان کے بچے قتل ہوئے۔لیکن ہمارا نظام انصاف حرکت میں نہیں آیا۔ سندھ میں ناظم جوکھیو کا قتل ہوا لیکن نظام عدل حرکت میں نہ آیا۔اندرون سندھ میں بہت سارے پاکستانی اغواء ہوتے ہیں، گاہے بگاہے ان کی ویڈیوز آتی ہیں۔پنجاب میں 3571 خواتین لاپتہ ہیں لیکن حکومت کا رویہ ایسا ہے جیسے یہ ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔عوام کی بے بسی ہے اور حکمران کی بے حسی۔اگر میں یوں کہوں کہ ملک کی دو بڑی جماعتیں بالکل ایک جیسی ہیں تو غلط نہ ہوگا۔
لینڈ مافیا،ڈرگ مافیا،پٹرول مافیا، آٹا مافیا، شوگر مل مافیا یہ سب پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔کبھی شہباز شریف نے آصف علی زرداری کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ٹھگ ہے اور میں اسے گھسیٹوں گا، آج سیاسی مفادات  کے تحت بلاول اور مریم بھائی بہن بن گئے ہیں۔ عمران خان پرویز الہی کو ڈاکو کہتے تھے۔لیکن آج انہی کو اپنی پارٹی کا صدر بنا دیا ہے ۔افسوس کہ اصولوں کی بنیاد پر سیاست نہیں ہورہی، مفادات کی بنیاد پر  ہونے والی سیاست  کا سو فیصد نقصان عوام کو ہو رہا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جسے غیر جانبدار رہنا چاہیے ان ہی کی سپورٹ سے یہ لوگ آئے۔جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ حکمران اور دوسری جماعتیں ایکسپوز ہو گئی ہیں اب عوام جماعت اسلامی کو موقع دے،یہ ترقی پسند ،کرپشن فری،حقیقی جمہوری جماعت ہے۔

نوائے وقت: عام انتخابات کے لیے جماعت اسلامی کا کیا مطالبہ ہے؟ کیا جماعت جزوی انتخابات پر راضی ہے؟
سراج الحق:عام انتخابات کے لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ جزوی الیکشن کی بجائے تمام ملک میں ایک وقت پر ایک ساتھ جنرل الیکشن ہو۔ دو صوبوں میں اگر الیکشن ہو بھی گیا  تو اس پر بھی اعتراض ہوگا،مرکز مداخلت کرے گی۔اور اگر دو صوبوںمیں حکومت بن جاتی ہے اور  جنرل الیکشن ہوں تواس پر بھی لوگ اعتراض کریں گے کیونکہ دو صوبوں میں حکومت بن چکی ہو گی۔ لہذا ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام ملک میں ایک ساتھ جنرل الیکشن کروائے جائیں۔جزوی الیکشن خانہ جنگی اور فساد کا باعث بنے گا۔
نوائے وقت: عدلیہ اور سابقہ اسٹیبلشمنٹ پر   الزامات لگے، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ 
سراج الحق:اصل میں مسلم لیگ فیض حمید کے خلاف اور عمران خان باجوہ کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔حالانکہ ان سب کو انہی دو لوگوں نے فائدہ پہنچایا تھا۔ فیض حمید ‘ جنرل باجوہ کا رائٹ ہینڈ تھا۔باجوہ کو ایکسٹینشن دیتے ہوئے   پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی سب ایک تھے۔لہذا اُن کی اچھائی اور برائی میں یہ سب کے سب شریک تھے۔ان سیاسی جماعتوںنے اصولوں کی سیاست کے بجائے مفادات کی سیاست کی۔عمران خان  نے یہ اقرار بھی کیاکہ ہم باجوہ کو مزید ایکسٹینشن دینے والے تھے۔اس کے علاوہ فوجی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ عمران خان نے باجوہ کو تاحیات ایکسٹینشن کی آفر بھی کی تھی۔یعنی  جن کا اپنا کوئی کردار نہ ہو وہ اس طرح کے سہاروں کے پیچھے رہتے ہیں۔
 نوائے وقت:سابق چیف جسٹس ثاقب نثار  نے کہا کہ انھوں نے عمران خان کو مکمل طور پر  صادق اور امین نہیں کہا،کیا آئین پاکستان میں نصف صادق اور امین کا تصور موجود ہے؟
سراج الحق:ثاقب نثار ایک متنازع چیف جسٹس تھے۔ ان کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔جس طرح یوٹرن لینا معمول بن گیا ہے اسی طرح ثاقب نثار بھی یو ٹرن لیتے رہتے ہیں۔انھوں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ میں ڈیم  بنائوں گا۔کبھی کہتے تھے کہ میں آبادی کنٹرول کرنے کے لیے جہاد کروں گا۔وہ سب کر گئے لیکن انصاف مہیا کرنے کا جو ان کا کام تھا ،بس وہ نہ کر سکے۔
نوائے وقت : آئی ایم ایف کی سخت شرائط کیا عام آدمی کے لیے ہیں؟اشرافیہ کب قربانی دے گی؟
سراج الحق:آئی ایم ایف کیساتھ یہ 23 واں پروگرام ہے اور 22 پروگرام ناکام ہو گئے ہیں۔ یعنی 22 مرتبہ قرضے لے لے کر ہم پر قرضوں کا ہمالیہ بنا دیاگیا ہے۔اس طرح پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔قرضوں کی بنیاد پر کوئی ملک ترقی نہیں کرتا۔ آئی ایم ایف نے اگر ٹیکسز لگانے کی بات کی ہے تو دوسری طرف انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ مال دار طبقے سے لے لیں۔ لیکن مال دار طبقے پر ہاتھ ڈالنے کے لیے حکومت تیار نہیں۔چار ہزار ارب کے اثاثے سیاسی لیڈران، جرنیلوں،بیوروکریٹوں اور کاروباری لوگوں کے پاس ہیں۔ 18 افراد ایسے ہیں۔ ان 18 افراد کے چار ہزار ارب کے اثاثے کچھ یہاں ہیں کچھ ملک سے باہر ہیں۔
 170 ارب  اگر آپ ملک ریاض سے کہیں تو وہ بھی دے  دیں گے۔لیکن امیر طبقے کی بجائے حکومت  غریب عوام سے قربانی دینے کا کہہ رہی ہے۔آئی ایم ایف ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے۔ غیر ترقیاتی اخراجات کم کیے جائیں، کابینہ کے وزراء کی تعداد محدود کی جائے، کرپشن ختم ہو،عوام کا اعتماد بحال کیا جائے گا تو لوگ ٹیکسز دیں گے، زکوۃ دیں گے۔اوور سیز پاکستانیوں کے مطالبات اگر پورے کر دیئے جائیں تو ان ہی سے کافی ریونیو ملک میں آسکتا ہے۔ لیکن ہم اوور سیز پاکستانیوں کو ایئر پورٹ پر ہی لوٹنا شروع کر دیتے ہیں ، نتیجتاً ان کا اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ہم نے اوور سیز پاکستانیوں سے کہا ہے کہ اگر جماعت اسلامی کی حکومت آئی تو انھیںایک گولڈن شناختی کارڈ دیا جائے گا۔ تاکہ انھیں محسن پاکستان کے طور پر سراہا جائے۔ ملک میں سرمائے کی کمی نہیں ہے۔ سرمایہ داروں سے سرمایہ لے کر ملک پر لگایاجائے۔ لیکن حکومت یہ نہیں کر سکتی۔ 

ای پیپر دی نیشن