حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود احمد سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com
ماہ صیام سے دو روز قبل وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے مستحق اور غربت سے متاثرہ آبادی کے لیے ساڑھے سات ارب کے رمضان پیکج میں اضافہ کرکے اسے ساڑھے 12 روپے کر دیا۔ پیکج سے 3 کروڑ 96 لاکھ خاندان سستے داموں اشیاء ضروریہ حاصل کرسکیں گے، یہ اشیاء یوٹیلٹی سٹورز اور بی ایس آئی بی کے ساتھ اب موبائیل یونٹس کے ذریعے بھی دستیاب ہونگی۔ وزیراعظم کی طرف سے ہدایت جاری کی گئیں کہ ریلیف کا دائرہ مزید پھیلایا جائے۔ حکمرانوں کی جانب سے رعایا کی خبر گیری اور اس کا خیال حکومت کا فرض اولین ہے اور یہ فرض اول اسی وقت کا رگر ثابت ہوگا جب حکومت فیصلے کو نافذکرکے عمل داری پر نظر بھی رکھے۔ حکومت کی نظر مسلسل پڑ ے گی تو ڈیمانڈ اور سپلائی میں توازن برقرار رہے گا جس سے اشیاءکی قیمت اور کوالٹی متاثر نہیں ہوگی۔
آپ سعودی عرب چلے جائیں ' ترکی براک نظر ڈالیں' ایران کی روز مرہ زندگی کا جائزہ لیں یا چین کے حالات پڑھ لیں وہاں قیمتوں میں استحکام کا میکنزم (نظام) حیرت کے دروازے کھول دے گا۔سعودی عرب میں سال بعد وزٹ کریں آپ کو مشروب' دودھ' چائے اور پھل پرانے ریٹ پر ملیں گے اور تو اور بنگلہ دیش' بھارت یہاں تک کہ افغانستان میں بھی مصنوعی مہنگائی کی شکایات نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ ہمارے اسلامی اور جمہوری پاکستان میں قیمتوں کا استحکام خواب بلکہ'' ڈروانا خواب ''ہے وطن عزیز میںکوئی ایک بازار ایسا ''مثالی'' نہیں ملے گا جہاں کسی شے کے ایک نرخ ہوں۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی 25 کروڑ آبادی میں سے نصف تعداد کو دو وقت کی روٹی مشکل سے میسر ہے۔ ایک کروڑ گریجویٹ بے روزگاری کا پہاڑ کاٹ رہے ہیں۔ اڑھائی کروڑ افراد بے روزگاری کی عدم دستیابی سے پریشان ہیں۔ غربت آخری حد پر اور مہنگائی کمال پر پہنچ چکی ہے۔ دوسری طرف حکومت 25 کروڑ یا 12 کروڑ افراد کی خدمت کی بجائے صرف یوٹیلٹی سٹورز میں سروس کا چراغ روشن کر رہی ہے، یہ آج کا مسئلہ نہیں ،ہر حکمران اپنے عہد میں یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے ہی عوام سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ اب محبت کی حقیقت دیکھیں وطن عزیز میں غربت کی مقرر کردہ لکیر کے نیچے کسمپرسی کی زندگی گزارے والوں کی تعداد ساڑھے بارہ کروڑ ہے جبکہ حکومت صرف 3 کروڑ غریب خاندانوں کو ساڑھے 12 ارب روپے کے پیکج سے سستی قیمت پر اشیاءفراہم کرے گی۔ کیا اس بجٹ اور اس انداز سے خدمت کا خواب پورا ہو جائے گا؟
'' خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے'' اب ذرا یوٹیلٹی سٹورز کے صارفین بلکہ غریبوں سے عقیدت اور خدمت کا منظر بھی دیکھ لیں۔ حکومت کی طرف سے سبسٹڈائز نرخ جو مشتہرکئے جارہے ہیں وہ کچھ اور ہیں جبکہ سامان کی رسید میں ریٹ مختلف ہیں۔ جب صارف زائد نرخ کی نشاندہی اور شکایت کرے تو اسے خاموش رہنے یا کسی اور شاپ ( سٹور) سے رجوع کرنے کی ہدایت دے دی جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کا سیدھا سادھا جواب ہے کہ انتظامیہ اور پرائس کنٹرول اتھارٹی کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے تاجر کمیونٹی ' یوٹیلٹی سٹورز انچارج صاحبان اور دکانداروں کو خدا کا خوف ہے نہ حکومت اور انتظامیہ کا ڈر !! پرائس کنٹرول کمیٹی کاوجود تو سراب ہے سرکاری کمیٹی صرف نرخ نامہ( لسٹ ) جاری کرنے تک محدود ہے۔کوئی چیکنگ ہے نہ مانیٹرنگ غیر معیاری' اشیاء باسی چیزیں اور منصر صحت اشیاء فروخت کی جارہی ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں!! بیروزگاری اور مہنگائی نے ہر خاندان میں مشکلات کی فصل بو دی ہے۔مہنگائی اور مسلسل بے روزگاری کی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جرائم کی شرح بڑھ گئی۔ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں سب سے زیادہ فریق نوجوان نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی یوتھ کو قومی تعمیر سے منسلک کرنا بہت ضروری ہے۔ حکومت کی طرف سے قرضوں کا اجرا بہتر قدم ہے تاہم اس سے بھی بڑا فیصلہ فراہمی روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔نئی حکومت سرکاری سکولوں کو پبلک اور پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے چلانے کی خواہش مند ہے۔ ایجوکیشن کمیونٹی کو قومی خدمت میں ساتھ رکھنا بہترین فیصلہ ہے یہ بھی ضروری ہے کہ ہے کہ حکومت تعلیمی شعبے کی ترقی کے لیے پبلک و پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک کو ہر سطح پر اہمیت دے ،اگر ایسا ہو جائے تو وطن عزیز کے اڑھائی کروڑ بچوں کو سکول ایجوکیشن سے منسلک کرنے میں مدد ملے گی۔ ہمارے یہاں سکول ،کالج اور جامعات کو بے جا ٹیکسوں نے جکڑا ہوا ہے۔وفاقی اورصوبائی حکومتیں ٹیکس شرح میں کمی کرکے علم دوستی کا خواب پورا کرسکتی ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومت کے لیے پہلا چیلنج ماہ صیام میں بڑھتی ہوئی مہنگائی روکنا ہے۔عام لوگ' غربت کے مارے اور مہنگائی کے ستائے افراد شکایات کے لیے کس در پہ جاکر زنجیر عدل ہلائیں۔