معاشروں کے استحکام کی بنیاد نظام انصاف پر قائم ہوتی ہے۔ جس معاشرے میں جس قدر انصاف ہو گا وہ معاشرہ اتنا ہی پر سکون ہو گا۔ اور جہاں سکون ہو گا وہاں ترقی ہوگی۔ جہاں عدم استحکام ہو گا وہاں غیر یقینی نمایاں ہو گی۔ لوگ کنفیوژ ہوں گے، ہر وقت انجانے خوف میں مبتلا رہیں گے۔ وہ کوئی کام تندہی سے نہیں کر پائیں گے اور ان کی توجہ بٹی رہے گی۔ وہ جو کام بھی کریں گے اس میں پائیداری نہیں ہوگی ہرکوئی اپنا کام، مگروں لاہن واسطے کرے گا۔
پاکستان کا جسٹس سسٹم عالمی رینکنگ میں 130 ویں نمبر پر آتا ہے یہاں سے اندازہ لگائیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم نظام انصاف کی بہتری کے لیے کوئی خاطرخواہ اقدامات بھی نہیں کر رہے۔ ہم مقدمات کے التواءکا بھی ریکارڈ رکھتے ہیں نہ ہم اپنے نظام انصاف میں کوالٹی پر توجہ دے رہے ہیں اور نہ ہی کوانٹٹی کم کر پا رہے ہیں۔ التواءمیں پڑے مقدمات کا فیصلہ بھی نہیں ہو پا رہا اور نئے مقدمات میں بھی قوم الجھی ہوئی ہے۔ انصاف بہت مہنگا ہے اور ملنا بھی مشکل ہے اسی لیے لوگ دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ کچہریاں توں بچاویں۔ جس طرح کا آپ کو انصاف چاہیے اسی کوالٹی کا وکیل کر لیں۔ اب تو ماشاءاللہ وکلاءکی فیس بھی کروڑوں تک پہنچ گئی ہے۔ حال ہی میں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کا ایک فیصلہ آیا ہے جس میں تاریخ کو درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور عدلیہ نے اپنی غلطی کو 44سال بعد تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے بانی چیرمین ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل نہیں ملا اس کو سزا دباو¿ میں دی گئی۔ پوری دنیا کا یہ انوکھا کیس تھا جس میں ،جرماں نالوں ودھ سزاواں ملیاں والا کھاتہ تھا۔
جس جرم میں ذوالفقار علی بھٹو کو سزا دی گئی اس جرم یعنی اعانت جرم میں نہ پہلے کبھی کسی کو موت کی سزا دی گئی تھی نہ بعد میں کسی کو ایسی سزا ملی ہے لیکن اس وقت طاقت انھیں راستے سے ہر حال میں ہٹانا چاہتی تھی لہذا طاقت کامیاب رہی اور طاقت نے عدلیہ کے ذریعےاپنی خواہش پوری کر لی لیکن کبھی کسی نے سوچا کہ اس سے لوگوں کا پاکستان کے نظام انصاف سے اعتماد اٹھ گیا۔
خیر سے یہ اعتماد بحال کرنے کی بھی کسی نے کوشش نہیں کی اور ابھی جو کچھ ہوا ہے وہ بھی اس وجہ سے ہوا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے وارث تگڑے تھے۔ انھوں نے تاریخ کا دھارا درست کرنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری صدر پاکستان تھے تو انھوں نے سپریم کورٹ میں ریفرنس بجھوا کر بھٹو کو انصاف دلوانے کی کوشش کی اور یہ کیسا انصاف ہے کہ بندہ ناحق پھانسی چڑھ چکا ہے اور صرف یہ واضح کروانے کے لیے کہ یہ پھانسی درست نہ تھی چوالیس سال لگے ہیں اور انصاف کے لیے بندے کو صدر مملکت بننا پڑا۔ پھر بھی حالت یہ تھی کہ کوئی اس کیس پر نظرثانی کے لیے تیار نہ تھا۔ کم از کم جسٹس قاضی فائز عیسی نے اتنی ہمت تو کی اور اس پر فیصلہ تو دیا۔ اس فیصلہ کا لواحقین کو صرف ایک فائدہ ہو سکتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی قبول کر لی لیکن سمجھوتہ نہیں کیا۔
اب ذرا ایک دوسرے معاملہ کی طرف آتے ہیں میاں نواز شریف اس ملک کے تین بار وزیر اعظم رہے تین بار ہی وزیر اعلی رہے ان کے بھائی جو اب دوبارہ وزیراعظم بنے ہیں ان کے مقدمات کا کیا بنا تاریخ میں اس بارے بھی بڑی کنفیوڑن ہے عدلیہ مہربانی کرے ذرا اسے بھی درست کر دے اور پھر اس کے بعد ان لوگوں کے بارے میں بھی فیصلوں کو درست کر دیا جائے جن کو ماتحت عدالتوں سے سزائے موت ہوئی ان پر عملدرآمد بھی ہو گیا وہ پھانسی چڑھ چکے جب اعلی عدالتوں نے معاملات چیک کیے تو پتہ چلا کہ وہ بےگناہ تھے ان کامداوا کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو ان کے لواحقین کو بھی ایک کاغذ تھما دیا جائے تاکہ ان کی نسلیں معاشرے میں وضاحت کر سکیں کہ ان کے بڑوں کو ناحق سزا دی گئی تھی۔
یہ بھی واضح ہو جانا چاہیے کہ جنرل پرویز مشرف کا طیارہ اغوا ہوا تھا یا میاں نواز شریف کے اقتدار کو ختم کرنے کے لیے ڈرامہ رچایا گیا تھا؟۔ میاں نواز شریف کو طیارہ سازش کیس میں دی گئی سزا درست تھی یا غلط تھی اور میاں نواز شریف کا سمجھوتہ کرکے دس سال کے لیے بیرون ملک جانا قانونی تھا یا غیر قانونی تھا؟۔ اور پانامہ میں میاں نواز شریف کو سزا درست تھی یا بہانہ تھا اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے پیچھے کیا حقیقت تھی۔ نیب کیسز میں میاں فیملی کے ممبران کو سزائیں درست تھیں یا انھیں نکرے لگانے کے لیے سارا کچھ مینج کیا گیا تھا۔
اب تو ماشاءاللہ میاں نواز شریف کے دونوں صاحبزادے بھی حالات درست ہونے پر پاکستان سے انصاف لینے کے لیے وطن عزیز میں تشریف لے آئے ہیں۔ اس نظام انصاف پر لوگوں کا اعتماد بحال کیسے ہو سکتا ہے جہاں جب چاہے بندوں کو اقتدار سے نکالنے کے لیے سزائیں دینا شروع کر دیں۔ جہاں پتہ چلتا ہے کہ بندہ ایک دن مجرم ہوتا ہے اور اگلے دن وزیراعظم ہوتا ہے۔ خدارا اس ملک کے کرتا دھرتاو¿ں کو سوچنا چاہیئے کہ آخر کب تک ہم اپنے آپ کو دھوکہ دیتے رہیں گے۔ آج کل بھی معاشرے کا ایک حصہ انصاف کے لیے دہائیاں دے رہا ہے سسٹم کو انھیں انصاف دینا چاہیے ورنہ اگلے چوالیس سال بعد بھی ہم معافیاں مانگ رہے ہوں گے۔
٭....٭....٭