ماہ صیام روزہ اور نماز کی تربیت کا مہینہ

عیشہ پیرزادہ
ماہ رمضان کا آغاز ہوچکا ہے اور ننھے بچے بڑوں کو روزہ رکھتا ر دیکھ کر خود بھی روزہ رکھنے کی تمنا کررہے ہیں۔ سحری اور افطاری کی رونقیں ان کے دل کو بھاتی ہیں۔ بچوں کی دلی کیفیت کا عالم یہ ہے کہ بچپن میں آنے والا رمضان عمر بھر کے لیے یاد داشت کے صندق میں قید ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر بچے کا دل روزہ رکھنے کو چاہتا ہے۔ لیکن اکثر والدین بچوں کی اس خواہش کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے بلکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ والدین کے ذہن میں کئی طرح کے سوالات جنم لے لیتے ہیں مثلا کبھی یہ خیال امڈ آتا ہے کہ بچہ کم عمر ہے ،روزہ کی سختی سہہ نہیں سکے گا۔ یہ سوچنے کی بجائے والدین بچے کی حوصلہ افزائی پر توجہ دیں اور اس بات پر خوش ہوں کہ ان کا بچہ روزہ رکھنے کی خواہش کر رہا ہے۔کبھی بھی بچے کی اس خواہش پر منع نہ کریں۔اگر بچہ سات سال سے چھوٹا اور کمزور ہے تو آپ بچے کو چڑی روزہ رکھوائیں۔ یوں روزے کا تصور بچے کے ذہن میں نمایاں ہوگا اور وہ دماغی طور پر پورے دن کا روزہ رکھنے کے لیے بھی تیار ہو جائے گا۔اس کے علاوہ اس ماہ روزہ رکھنے کی تربیت کے ساتھ ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ مرکوز رکھیںکیونکہ اس ماہ ان کی دینی اور اخلاقی تربیت سب سے زیادہ اثر انگیز ثابت ہوسکتی ہے۔
شیطان کے قید ہونے اور اس سے ہماری زندگی پر اثرات سے بچوں کو آگاہ کریں۔ 
مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹی تھی تو ماہ رمضان کے آغازپر شیطان قید ہونے کے تصور سے ہی ایک خوشی کی لہر روح و قلب کو تروتازہ کر دیتی تھی۔ اور عید کا چاند نظر آنے پر جہاں عید کی خوشی ہوتی وہیں ایک دکھ یہ بھی تھا کہ اب شیطان بھی آزاد ہوچکا ہے۔
لہذا آپ بھی اس ماہ بچوں کی تربیت اور ذہن سازی کے لیے انھیں بتائیں کہ اس مہینے شیطان قید ہے اور ہم نے ہر بری عادت چھوڑ کر خود کو تیار کرنا ہے تاکہ شیطان کے آزاد ہونے پر اس سے لڑ کر اسے ہرا دیں۔
بچوں کو سچ اور جھوٹ میں فرق اور اثرات سے آگاہ کریں۔خود بھی کوشش کریں کہ بچوں کو جن امور سے روک رہیں ہیں وہ ہم خود نہ کریں،کیونکہ بچہ پریکٹکل چیزوں کو جلد اپناتا ہے۔ اگر وہ آپ کو وہی کرتا دیکھے گا جس سے آپ اسے روک رہے تھے تو بچہ بھی آپ کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے باہر نکال سکتا ہے۔آج کل کے بچے ٹاسک  جیتنے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ ماہ رمضان کو بھی مائیں بچے کے سامنے کسی ٹاسک کی طرح رکھیں۔اس کے علاوہ سات سال یا اس سے بڑی عمر کے بچوں کو نماز کا پابند بنانے کے لیے بھی ماہ رمضان سے بہتر کوئی مہینہ نہیں۔ اس ایک ماہ میں تیس دن اور ہر دن پانچ وقت کی نماز اگر بچہ پڑھتا ہے تو یقینا رمضان المبارک گزرنے کے بعد بھی بچہ  نماز پر قائم رہے گا۔ کوشش کریں کہ گھر کے مرد افراد بچے کو قریبی مسجد لے کر جائیں،یوں اس کے ذہن میں مسجد آباد کرنے کاتصورپروان چڑھے گا۔ 
اس کے علاوہ گھر میں بھی مائیں بچے کو اپنے ساتھ نماز پڑھائیں۔یہ ماہ نیکیوں کا مہینہ ہے اور چھوٹی چھوٹی نیکی کرنے کی عادت اگر ذات کا حصہ بن جائے تو تا حیات یہ عادت ساتھ رہتی ہے۔ اس ماہ بچوں میں خیرات  دینے کا رحجان پیدا کریں۔ کوئی فقیر آئے تو بچوں کے ہاتھ سے پیسے دیں۔ اس کے علاوہ مل بانٹ کرکھانے کی عادت بنائیں۔
کوشش کریں کہ افطار کے وقت بچے کو تلقین کی جائے کہ اپنی پلیٹ سے چھوٹے بھائی یا بہن کوبھی افطاری کھلائو۔
سچ اور جھوٹ کی تمیز سیکھائیں۔ غصہ کرنا اوربلند آواز میں بات کرنے سے منع کریں۔ ساتھ ہی خود بھی اس عمل کو اپنائیں۔گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کی تربیت کے لیے بھی ماہ صیام موزوں ہے۔ افطار کے وقت بچوں میں رحجان عام کریں کہ افطار ی کے لیے دسترخوان آپ نے تیار کرنا ہے۔ ٹیبل یا فرش پر دسترخوان کیسے لگایا جاتا ہے یہ سیکھائیں۔ پلیٹیں اور چمچ رکھنے کا صحیح انداز سیکھائیں۔
اس کے علاوہ افطاری کے بعد استعمال شدہ برتنوں کو کچن میں رکھنا اور ٹیبل صاف کرنے کی ڈیوٹی بھی بچوں کی لگائیں۔ مہینے کے 30  دن جب آپ کا بچہ یہ تمام امور  ذمہ داری سے سر انجام دے گا تو آپ اس کی شخصیت میں بدلائو محسوس کریں گے۔
 لہذا اس ماہ صیام اپنے روزوں اور عبادات کے ساتھ بچوں کی  اچھی تربیت کا موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

ای پیپر دی نیشن