دمشق(این این آئی)داعش کو اپنا اقتدار کھوئے ہویے پانچ سال ہو رہے ہیں مگر داعش کے جنگجووں اور ان کے حامیوں کے تیس ہزار بچے آج بھی شامی کیمپوں اور جیلوں میں پڑے بد سلوکی بھگت رہے ہیں۔ یہ بچے کئی سال پہلے مختلف ملکوں سے آئے تھے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اب ان میں سے کچھ تو بحالی کے لئے قائم کردہ کیمپوں اور مراکز میں ہیں۔ یہ بات اقوام متحدہ کے کمیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہی ۔ بحالی مراکز شام کے شمال مغرب میں قائم ہیں۔شام کے لئے قائم شدہ انڈی پینڈنٹ انٹر نیشنل کمیشن آف انکوائری کے مطابق زیادہ تر بچے وہ ہیں جو اپنے والدین کے ساتھ مختلف ملکوں سے آئے تھے تاکہ 2014 میں شام و عراق میں اعلان کردہ خلافت کے تحت رہ سکیں۔یہ لوگ چاہتے تھے کہ جن ملکوں سے ان کا تعلق ہے وہ بھی اسی خلافت سے منسلک ہو جائیں یا کم از کم یہ پھر ادھر ہی رہ جائیں۔ان میں سے بچوں کی بڑی تعداد الہول کیمپ میں موجود ہیں۔اس کیمپ میں دوڈرے اہل خانہ اور بیویاں بھی شامل ہیں۔ یہ جنگجووں کے اہل خانہ ہیں یا ان کے حامیوں کے گھر والے اور بچے ہیں۔ایک چھوٹی تعداد راج کیمپ میں مقیم ہے۔ بیس سال کم عمر کے نوجوانوں کو البتہ جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔یہ جیلیں امریکی حمایت یافتہ کردوں کے کنٹرول میں ہیں۔ انہی کو وہ بحالی مراکز بھی کہا جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ان میں موجود بچوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ بہت سارے ایسے ہیں جنہیں زیادتی کا سامنا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں داعش کے دور میں بھی ہوتی رہیں اور اب بھی ان کے حالات نہیں بدلے ہیں۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق انہیں سخت بے رحمانہ نگرانی میں اور غیر انسانی ماحول میں رکھا گیا ہے۔ یہ رہائش کا انداز اور معیار انسانی وقار کے بھی منافی ہے۔