-9 یو ۔ این کی ٹیم قاتلوں کی نشاندہی نہیں کر سکی البتہ کچھ اشارے ضرور دئیے ہیں۔ اس رپورٹ کا لب لباب کچھ یوں ہے۔
-(1 محترمہ بے نظیر کو پراپر سکیورٹی نہیں دی گئی اور اس کے لئے پرویز مشرف حکومت ذمہ دار ہے۔-(2 جائے حادثہ کو فوراً دھونا نہایت عاجلانہ اور غیر ذمہ دارانہ فعل تھا ۔ایسا غالباً ایجنسیوں کے ایماءپر کیا گیا۔ اس سے کافی حد تک Incriminatory Evidence ختم ہوگئی ہے۔-(3 پولیس ایجنسیوں سے اس قدر خائف ہے کہ مکمل تفتیش نہیں کر سکی۔ -(4 وہ لوگ جو محترمہ کی سکیورٹی پر تعینات تھے ان کا وقوعہ کے بعد فوراً غائب ہو جانا محل نظر ہے۔-(5محترمہ کی موت کسی گولی یا بم کے ٹکڑے سے نہیں ہوئی بلکہ گاڑی کے لیور کے ٹکرانے سے ہوئی ہے۔-10 آئیے ان سب نکتوں کا بنظرِ غائر جائزہ لیتے ہیں لیکن اس سے پہلے دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ محترمہ نے پاکستان آنے سے پہلے ق لیگ کے ایک اہم رہنما کا نام لیا تھا۔ صدر زرداری نے بھی اس کو قاتل لیگ کہا تھا۔ اس رپورٹ کی روشنی میں ان کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملتے۔ صدر زرداری نے کہا ہے وہ قاتلوں کو جانتے ہیں نام نہ بتانے کے سلسلے میں بڑی بھونڈی دلیل دی جاتی ہے۔ اس طرح انتقامی کارروائی کا گمان ہوتا ہے۔ قاتل، قاتل ہوتا ہے اور اس بہیمانہ فعل کے بعد اسے کھلا رکھنا دراصل اعانت مجرمانہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اب جبکہ یو این ٹیم کسی کو بالخصوص نامزد نہیں کرسکی۔ اس راز کے افشا کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا حکومت کی ذمہ ذاری بنتی ہے۔ -11 آئے دن پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے بیانات آ رہے ہیں کہ پرویز مشرف کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا جائے گا اور اسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے سزا دلوائی جائے گی۔ ہم پرویز مشرف کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ وہ ایک آمر تھا جس نے آئین توڑ کے ایک گھنا¶نا جرم کیا اور بغیر کسی قانونی جواز کے اس ملک پر آٹھ سال تک حکومت کی۔ یہ بذات خود ایک بہت بڑا مجرمانہ فعل ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قتل کا جرم ثابت کیسے کیا جائے گا؟ چونکہ حملہ خود کش تھا اس لئے قاتل مرچکے ہیں۔ جنہوں نے کراچی میں حملہ کیا تھا۔ وہ بھی اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اگر قاتل زندہ ہوتے تو بتا سکتے تھے کہ کس کے ایماءپر انہوں نے مجرمانہ فعل کیا ہے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ایجنسیوں کے پاس اس قسم کے جانباز نہیں ہوتے۔ ان کے پاس Hit & Ron ٹائپ ایجنٹ ہوئے ہیں۔ یہ کام صرف وہی لوگ کرتے ہیں جنہیں جنت کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس قسم کا میٹریل علاقہ غیر کی فیکٹریوں میں تیار ہوتا ہے۔ اس قسم کے شدت پسند اور دہشت گرد تو پرویز مشرف پر بھی کئی حملے کر چکے ہیں۔ ان حملوں میں سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ جس شخص کی اپنی سکیورٹی کا یہ عالم ہو وہ دوسروں کو فول پروف سکیورٹی کیسے مہیا کر سکتا ہے۔ جو لوگ SSG, GHQ کمانڈو ہیں اور تھری سٹار جرنلز تک پہنچ سکتے ہیں۔ وہ کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ ہندوستان میں راجیو مارا گیا، باپو (مہاتما گاندھی) کو دن دیہاڑے ایک شخص نے گولی مار دی۔ صدر کینیڈی اور ریگن گولیوں کا نشانہ بنے۔ اس وقت کی حکومتوں کو مطعون تو کیا جا سکتا ہے قتل کا جرم ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ہمارے خیال میں مشرف کو سزا ہونے کا کوئی احتمال نہیں ہے۔-12 رحمان ملک، بابر اعوان وغیرہ پر بھی شک کیا جا رہا ہے۔ ان کی گاڑی محترمہ کی گاڑی کے آگے ہونی چاہئے تھی یا پیچھے ہونی تھی۔ حادثے کے وقت وہ آگے کیوں نکل گئے۔ رحمان ملک کو ہٹا دیا جائے کیونکہ وہ تفتیش پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس وقت اس گاڑی میں ان دو حضرات کے علاوہ فرحت اللہ بابر بھی موجود تھے۔ رحمان ملک نے حادثے سے پہلے چند پراسرار فون بھی کئے تھے وغیرہ! کیا اس سے ان کے ملوث ہونے کا کوئی شائبہ ہی ہو سکتا ہے۔ پراسرار فون تو اسی صورت میں کیا جا سکتا تھا ہر دو حضرات کسی قسم کی سازش میں شریک ہوئے۔ ان کی موجودگی میں رحمان ملک کو کیا پڑی تھی کہ اپنے خلاف Evidence Create کرنا۔ دراصل یہ بہت دور کی کوڑی لانے والی بات ہے۔ لگتا یوں ہے کہ جب بم پھٹا۔ انسانی اعضا اور خون کے لوتھڑے چار سو اڑے تو ڈر کے مارے یہ آگے نکل گئے۔ Instinct of Self Preser Vation سب وفاداریوں کو نگل جاتی ہے۔-13 جس کسی نے بھی جائے وقوعہ کو دھونے کا حکم دیا بلاشبہ اس سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ اس سے اور باتوں کے علاوہ شکوک و شبہات اور عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ بالفرض ایسا نہ کیا جاتا تو کون سی ایسی شہادت دستیاب ہو سکتی تھی جو قاتلوں کی گرفتاری یا نشاندہی میں ممد اور معاون ثابت ہو سکتی؟۔ (i قاتلوں کی شناخت ہو جاتی (ii) بم کی ساخت کا پتہ چل جاتا (iii) گولی کس کیلیبر کے پستول سے فائر کی گئی۔ کوئی دستاویزی ثبوت ہاتھ آ جاتا۔ قاتل تو کیرے کی آنکھ نے پکڑ لئے تھے۔ ان کے سر بھی مل گئے تھے۔ اگر اجمل قصاب کی طرح کوئی زندہ بچ جاتا تو تفتیش میں بڑی مدد مل سکتی تھی۔ لیکن ایسا نہ تھا حملہ آور موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے۔ بم کی ساخت سے کیا مدد مل سکتی تھی۔ اس وقت دہشت گردوں کے پاس ہر قسم کا اسلحہ ہے ہندوستانی روسی حتیٰ کہ کسی حد تک امریکن ہتھیار بھی نہیں۔ اس صورت میں تفتیش کو کیسے آگے بڑھانا جا سکتا تھا۔ پستول کی گولی لگی ہی نہیں۔ دونوں اداروں اور میڈیکل رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ موت گاڑی کے لیور لگنے سے واقع ہوئی۔ خود کش حملہ آور جیب میں شناختی کارڈ یا دیگر دستاویزات نہیں رکھتے........ بالفرض ایجنسیوں کے خوف سے یا کسی اور وجہ سے پولیس تفتیش صحیح خطوط پر نہیں کر سکی تھی تو کیا وہ خوف اب ختم ہوگیا ہے؟ دوسرا اس بات کا اقبال جرم کون کرے گا؟ کیا موجودہ تفتیشی افسروں کے پاس اس قدر جرات و ہمت ہے کہ اتنے بااثر لوگوں پر بیک وقت ہاتھ ڈال سکیں؟۔ پوسٹ مارٹم نہ ہونے سے بھی مقدمے پر منفی اثر پڑے گا!-14 ہر جرم ثابت کرنے کے لئے موثر شہادت درکار ہوتی ہے جو اکثر دستیاب نہیں ہوتی۔ حکومت کے اندر اور باہر لوگوں کو آپ بزدلی، نااہلی اور ناسمجھی پر تو مطعون کر سکتے ہیں اقدام قتل میں ملوث نہیں کر سکتے۔ سکیورٹی انچارج ایسے لوگوں کو بنایا گیا جو Security Techniques کی ابجد سے بھی آشنا نہیں تھے۔ بظاہر اس واردات کے ڈانڈے علاقہ غیر سے جا ملتے ہیں۔ وہاں کا Chief Operator & Manupplatop بیت اللہ محسود اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ لہٰذا یہ معلوم کرنا کہ کس کے ایما پر وہاں سے قاتل دستہ آیا تھا۔ شاید فوری طور پر ممکن نہ ہو۔....ویسے ایک بات کی ہمیں سمجھ نہیں آ رہی۔ اگر خدانخواستہ اس تفتیش سے قاتلوں کا سراغ نہ مل سکا اور وہ نہ پکڑے گئے تو اس قدر ہاو ہو اور شور و شین کے بعد حکومت عوام کو کیا منہ دکھائے گی۔