الطاف مجاہد
سندھ میںقومی اور صوبائی اسمبلی کی مجموعی 191نشستوں کےلئے ہزاروں امیدوار میدان میں اترے تھے اور ان میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل تھیں پی پی نے آصف زرداری کی بہنوں عذرا پیچوہو‘ فریال تالپور‘ سسی پلیجو‘ شازیہ مری ‘ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا‘ ثانیہ ناز‘ نفیسہ شاہ کو ٹکٹ دیئے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ماروی میمن‘ راحیلہ مگسی امیدوار تھیں فنکشنل لیگ نے بی بی یاسمین شاہ کو میدان میںتارا۔ پی پی ش ب کی سربراہ غنویٰ بھٹو اور ارشاد خاتون نے انتخاب لڑا جبکہ مجلس وحدت المسلمین کی بانو جعفر‘ تحریک انصاف کی زرینہ سرور‘ آل پاکستان مسلم لیگ کی پارسا شاہ‘ متحدہ قومی موومنٹ کی خوش بخت شجاعت‘ ہیر سو ہو‘ تحریک انصاف کی ناز بلوچ‘ مہاجر قوی موومنٹ کی رانی بیگم‘ شاہین عدنان‘ قومی عوامی تحریک کی حاجیانی لنجو‘ ڈاکٹر سندھو منگہنار نے بھی انتخاب لڑا۔ آزاد حیثیت میں ویر و کولہی ‘ ریحانہ شاداب‘ جمنا ڈی ایم مہاراج‘ ہما تالپور‘ صبا بھٹی اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی امیدوار تھیں ان تمام میں سے کچھ نے کاغذات نا مزدگی واپس لے لئے بعض نے دستبرداری کا فیصلہ کیا اور کم و بیش ڈیڑھ درجن خواتین نے الیکشن لڑا اور مقابلہ کیا۔
2013ءکے الیکشن میں ملک بھر سے 849 خواتین قومی و صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر حصہ لے رہی ہیں ان میں سے سندھ کے 59 حلقوں سے 94 خواتین امیدوار ہیں ملک بھر میں 3 کروڑ 71 لاکھ 62 ہزار 760 عورتیں اپنا حق رائے دہی استعمال کریںگی یہ آج کا سندھ ہے جس میں صنف نازک نے اپنی اہمیت تسلیم کرالی ہے سندھ کی 94 خواتین امیدواروں میںویسے تو نمایاں خاندانوں کی شخصیات ہی کی اکثریت غالب ہے لیکن اس بار کچھ نئے چہرے بھی سامنے آئے جن میں ایک نام ویرو کولہی کا بھی ہے ویسے تو مائی حاجیانی لنجو‘ ناز بلوچ ‘ ثانیہ ناز کی انٹری بھی چونکا دینے والا واقعہ ہے۔ لیکن مائی ویرو کولہی نے جو ایک کسان کی بیٹی ہیں پی ایس 50 حیدرآباد سے سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کو چیلنج کر کے ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی ہے اس حلقے سے ماضی میں پی پی کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ ویرو کولہی نے یہ جانتے ہوئے کہ جاگیردارانہ رسم و رواج والے سماج میں تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا آسان نہیں خود کو میدان عمل میں لا کھڑا کیا۔ انہوں نے کہا کہ و ہ خالی ہاتھ مگر جرا¿ت مندی کے ساتھ الیکشن لڑ رہی ہیں۔ جبری مشقت کا خاتمہ ان کی زندگی کا مشن ہے۔ ا قلیتی کولہی کمیونٹی کے روایتی لباس میں ویرو واقعتاً ایک دیہاتی گھریلو عورت نظر آتی ہے وہ کسی کو نہ بتائے تو کون یقین کرے گا کہ اس نے دنیا کے بہت سے ملکوں کا دورہ کیا ہے اسے 2009 ءمیں ڈگلس فریڈم ایوارڈ ملا ہے اور بھارت ‘ جرمنی‘ برطانیہ میں اسے خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ کہنیوں تک چوڑیا ں پہنے‘ ماتھے پر تلک لگائے اور ناک میںلونگ و گلے میں موتیوں کی مالا میں وہ ایسی عورت محسوس ہوتی ہیں جس نے کبھی محنت سے جی نہ چرایا ہو کھیت مزدوری کی مشقت اس کے چہرے سے عیاں ہے جاگیردارانہ سوسائٹی نے اسے دل بھر کر ستایا تھا۔ 74 سالہ ویرو کے خاندان نے نجی جیل کی اسیری برداشت کی پھر اس نے پولیس سے رابطہ کیا ۔ رہائی ملی تو اپنے شوہر سمیت پھر سے زندگی کے سفر کا آغاز کیا اس جدوجہد میں اس نے اپنے جیسے 4 ہزار کسانوں‘ بھٹہ مزدوری کو جبری مشقت سے نجات دلائی جو آج معاشرے کے باعزت شہری ہیں۔ ویرو نے آزاد حیثیت میں کاغذات جمع کرائے تو پی پی کے شرجیل میمن اور خاوند بخش جھیجو ان کے مقابل تھے ظاہر ہے کہ پی پی کے پاور بیس میں فنکشنل لیگ‘ سندھی قومی پرستوں ‘ ن لیگ‘ جماعت اسلامی سمیت 10 جماعتی اتحاد سے مقابلہ آسان نہ تھا لیکن اس نے یہ کر دکھایا جعفر آباد کی مائی جوری جمالی کی طرح جس نے 2011ءکے ضمنی الیکشن میںجمالی خاندان ہی کے رستم جمالی کے مد مقابل انتخاب لڑا تھا گو کہ جوری بھی جیت نہیں سکی تھی لیکن یہ کیا کم تھا کہ اس نے جبر اور ستم کے ماحول میں نعرہ مستانہ بلند کر کے غریب آبادی کو ایک نئی آواز عطا کی تھی یہی کردار ویرو کولہی کا ہے جو ہاریوں اور مزدوروں کے حقوق کا تحفظ چاہتی ہے۔ انہوں نے ایک ٹی وی چینل سے کہا نہ ہمارے پاس پیسے ہیں نہ گاڑیاں کہ کسی کو کھانا کھلائیں یا پولنگ اسٹیشن لے جائیں البتہ ہمارا ماضی لوگوں کے سامنے ہے کہ ہم نے غریبوں کے لئے بہت کچھ کیا ہے وہ بتانے لگیں کہ ایک بار بدین کے کسان زمیندار کی جیل سے آزادی پا کر کسان آئے تو ان کے پاس کچھ نہ تھا ہمارے سماج میںعورت کاچوڑیاںاتارنا بدشگونی ہوتی ہے لیکن میں نے ساتھی عورتوں کے منع کرنے کے باوجود سہاگ کی علامت طلائی چوڑیاں اتار کر فروخت کیں اور ان کے کھانے پینے کا بندوبست کیا کہ بھوکے خاندان کا پیٹ بھرے گا تو میرا سہاگ بھی سلامت رہے گا۔
فتح و شکست سے بے نیاز ویرو کولہی کا کہنا ہے کہ میں نے برسوں سے جمع پانی میںکنکر پھینک کر ارتعاش پیدا کیا ہے یقینا جلد یا بدیر تبدیلی آکر رہے گی۔