گھر واپس آتے ہوئے راستے میں”عمران خان“ کے زخمی ہونے کی اندوہناک خبر سننے کو ملی۔ ایک صدمہ، تشویش کی لہر تھی جو ہر شخص کی رگ و جاں میں پھیل گئی۔ ٹی وی پر جو تصویریں مناطر دیکھے وہ افسوسناک بدنظمی، بد انتظامی کے علاوہ کچھ پر اسرار بھی معلوم ہوئے جو اس واقع کی بے لاگ، دو ٹوک تفتیش کی ضرورت کو اجاگر کر رہا ہے۔ تاہم خود عمران خان نے وضاحت کردی ہے کہ یہ اتفاقیہ حادثہ تھا کسی گارڈ نے دھکا نہیں دیا۔ یوں ایک لا یعنی معمہ شکوک و شہبات کی فصل کی پرورش پانے سے قبل ہی انجام کو پہنچ گیا۔مسلم لیگ نے اس موقع پر لائق تحسین ردعمل کا اظہار کیا ”نواز شریف “ ایک منجھے ہوئے قومی مدبر ہیں۔ انہوں نے فوری طور پر نہ صرف اپنی انتخابی مہم منسوخ کر دی بلکہ”عمران خان“ کو ہدف کردہ تمام نشریاتی مواد کو بھی رکوا دیا۔ ”میاں محمد شہباز شریف“ کا ہسپتال جانا بھی ایک خوشگوار سیاسی روایت قرار پایا۔ اسوقت پاکستان عام چناﺅ سے ایک دن کے فاصلے پر کھڑا ہے ”اللہ تعالیٰ“ کا شکر ہے کہ پاکستان ایک خوفناک حادثہ سے محفوظ رہا۔ ہم تو ”شہیدوں “ کا لہو اٹھاتے خود”شہید“ ہو چکے ہیں ۔ یہ بات بھی لائق تعریف ہے کہ ”اس حادثہ “ پر پوری قیادت اور قوم بلا تفریق ”ایک صفحے پر“ نظر آئی۔ یقینا ہم سب کو جاندار اصول اور بلند اخلاقی اقدار کو اپنانے کی ضرورت آج زیادہ ہے۔ تحمل ، برداشت کی اشد ضرورت جتنی آج ہے پہلے نہ تھی۔ عدم روداری کے کلچر کو بھلا کر کیا ہی اچھا ہو کہ ہم سے ”ایک قوم“ بن جائیں۔
”نواز شریف سے اپیل“۔ جناب محترم آپ کی سیاسی سمجھ بوجھ، تدبر، قومی امور بابت ثابت قدمی کو سلام کرتے ہوئے کہونگی کہ کیا ہی اچھاہو کہ تمام مسلم لیگوں کو اکٹھا کر دیں اور” پی، ٹی، آئی“ سے اتحاد کر لیں کیونکہ مخلوط، منقسم انتخابی نتائج کی وجہ سے جوڑ توڑ چمک کی بارش سے وہ ”غدر“ مچ سکتا ہے کہ عوام متنفر ہو جائیں گے ۔ یوں ”بڑے صاحب“ بھی یوں اطمینان سے نہیں بیٹھے فارمولہ ہے کہ جو جیتے گا وہی ہمارا ہو گا۔ اور ہماری سیاست تو ہے ہی چمک پر۔ ” حرف آخر“
”مخلوط مینڈیٹ“ انتشار پیدا کرے گا“۔ ”عمران خان“کا حادثہ عوام میں ہمدردی کی ایک بڑی لہر تو پیدا کرنے میں کامیاب رہا مگر دو تہائی والی صورتحال نظر نہیں آتی ہاں اگر”خاموش ووٹر“ باہر نکل آیا تو پھر واقعی ایسا ہونا ممکن ہے۔ مرکز میں مخلوط حکومت کی سربراہی”عمران خان“ کے پاس جانے کا موقع زیادہ قوی ہے۔ پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت بنے گی۔ مگر معلوم نہیں (پہلے بھی لکھ چکی ہوں) آثار و قرائن کچھ مدت بعد”ایک مزید الیکشن“ ہوتا دکھا رہے ہیں ۔ دل میں پختہ سو یقین ہوتا جارہا ہے کہ یہ ”اصل کی رہرسل “ ہے۔ فرق یہ ہو گا کہ ”متوقع ایک اور الیکشن“ میں ”مینڈیٹ“ واضح برتری کے ساتھ کسی ایک ”بڑی قومی جماعت“ کے پاس ہو گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو قوم ایک ”ناقابل برداشت“ مالی بوجھ تلے دب جائے گی اسلئے قوم کو چاہیے کہ وہ ”محب وطن قیادت“ منتخب کرے۔ ٹی وی کے آگے بیٹھ کر تبصرے کرنے کی بجائے ووٹ ضرور کاسٹ کرے اور ”ایک جماعت“ کو واضح فتح سے ہمکنار کرنے میں صرف ”پاکستان“ کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرے۔