اور اب میاں نواز شریف کی دل کی باتیں!

اور اب میاں نواز شریف کی دل کی باتیں!

11 مئی کا دن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یادگار دن ثابت ہوا ہے۔ قومی انتخابات میں پوری قوم کا جوش و جذبہ قابل تحسین رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف دونوں ہی مبارکباد کی مستحق ہیں ان دونوں پارٹیوں کے رہنما اور پارٹی ورکروں سمیت انکا ہر ایک ووٹر مبارکباد کا حق دار ہے۔ یقیناً پاکستان میں تبدیلی آ چکی ہے۔ کیونکہ اب پاکستانی سیاست میں ”فرینڈلی اپوزیشن“ کا تصور ختم ہو گیا ہے دوسری جانب پاکستان میں مفاہمت اور بھائی چارے کی عوامی سیاست کا اب نیا دور بھی شروع ہونے جا رہا ہے جیساکہ میاں نواز شریف نے اپنی شاندار کامیابی کے بعد جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس میں ان کی ”دل کی باتیں“ اس بات کا مظہر ہیں کہ وہ پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز کرنا چاہتے ہیں انہوں نے جس پرخلوص جذبے کے تحت ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو مذاکرات کی میز پر ایک ساتھ بیٹھ کر پاکستان کیلئے جس ”قومی ایجنڈے“ کی بات کی ہے میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں بار بار اس ”قومی ایجنڈے“ کی ضرورت پر زور دیا تھا میاں نواز شریف جب سعودی عرب میں قیام پذیر تھے ان سے ٹیلی فون پر بات کرنے کا موقعہ ملتا رہتا تھا میں نے لندن میں میاں شہباز شریف اور میاں نوازشریف سے کہا تھا کہ اگر پاکستان کی سیاست میں آپ نے اپنا کردار برقرار رکھنا ہے تو پھر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف سے کسی قیمت پر بھی کوئی سودے بازی نہ کریں بالکل ایسا ہی ہوا اور اس بات کا تمام کریڈٹ شریف برادران کو جاتا ہے کہ وہ اس سودے بازی سے دور رہے اور آج ماضی کی نسبت اور زیادہ بھر پور مینڈیٹ کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں اور اس بھاری مینڈیٹ والی حکومت کو ایک مضبوط اپوزیشن کا بھی سامنا کرنا پڑے گا جو کہ پاکستان میں میدان سیاست کیلئے صحت مند تبدیلی ہے پاکستان پیپلز پارٹی اے این پی اور چودھری برادران کا وفاق سے مکمل صفایا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اب پاکستان میں اتحادیوں کا ملکر حکومت کرنا اور قومی خزانے کو لوٹنا یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے اور وفاق میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنی حکومت بغیر کسی اتحادیوں کی مدد سے بنانے کی پوزیشن میں آ چکی ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کا اتحاد خود نئی حکومت کے مفاد میں نہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی اپنی پانچ سالہ ناقص کارکردگی کی بناءپر مکمل طور پر وفاقی منظر نامے سے غائب ہو چکی ہے صوبہ سندھ تک محدود ہوکر رہ جانے والی پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے ساتھ الحاق کرکے صوبہ سندھ میں اگر حکومت بنا بھی لیتی ہے تو پھر بھی اب یہ پارٹی چاروں صوبوں کی زنجیر کہلوانے کی حق دار نہیں رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا یہ بیان کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجابیوں کی نمائندہ جماعت ہے یہ بیان شیخ مجیب الرحمن کی یاد تازہ کر گیا ہے اسی طرح اے این پی نے اپنی شکست کے بعد جو مبارکباد کا پیغام دیا ہے وہ بھی اپنے اندر بے پناہ سوالیہ نشان لئے ہوئے ہے یعنی یہ کہنا کہ خیبر پختونخواہ میں طالبان کے نمائندوں کا جیت جانا.... ایم کیو ایم اور اے این پی کے ان بیانات کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھنا چاہئے اور ان کی روشنی میں کراچی میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اور ابھی تک ہو رہا ہے اب اس بارے میں تمام حقائق کھل کر سامنے آ چکے ہیں پیپلز پارٹی کا ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ اتحاد اور رحمن ملک کا ملاپ اس امر کا تقاضا کر رہا ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے پیش نظر اب ماضی میں ان تین کے ٹولے کی یعنی پیپلز پارٹی اے این پی اور ایم کیو ایم کے بارے میں خاص طور پر کراچی کی صورتحال کے حوالے سے وائٹ پیپر شائع کیا جائے اور قوم کو تمام پوشیدہ حقائق سے آگاہ کیا جائے کہ کراچی کو یرغمال بنانے اور وہاں مختلف مافیاز کے کردار نے ملکی سلامتی کیلئے کیا کیا مسائل پیدا کئے؟ اور کیونکر رحمن ملک کو ان مافیاز کے ساتھ روابط قائم رکھ کر آصف علی زرداری کی حکومت کو برقرار رکھا گیا؟ پانچ سال تک قومی سلامتی کا محافظ رہنے والے رحمن ملک کا ہر حال میں محاسبہ ہونا چاہئے اور ملک کے اداروں کے مابین تفرقہ پیدا کرنے اور عوام کو گمراہ کرنے کی مذموم کوشش کا باضابطہ نوٹس لیا جانا چاہئے پاکستان مسلم لیگ (ن) جو کہ تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاسی رہنماﺅں اور سنجیدہ قیادت پر مبنی ملک گیر قومی سیاسی پارٹی ہے اس پارٹی کو بلاشبہ بے پناہ مسائل اور قومی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ وفاق میں نئی حکومت کے قیام کے بعد پورے ملک میں یقیناً تبدیلی کے آثار نمودار ہونگے ٹیکس کے نظام کو ہنگامی بنیادوں پر درست کر لیا جائے اور ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنا لیا جائے تو ملک کی معیشت کا آدھا بوجھ کم ہو جائے گا رہا مسئلہ امن عامہ بے روزگاری، بجلی، گیس، پانی، صحت اور تعلیم کا تو پھر ان تمام مسائل کے حل کیلئے قومی ایجنڈے کی تشکیل فوراً ہو جانی چاہئے یقیناً میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے ان مسائل کے حل کیلئے اپنی شیڈو کابینہ بنا رکھی ہو گی جو کہ قوم کو پوری طرح ریلیف فراہم کر سکے گی ماضی میں میاں شہباز شریف کے ترقیاتی منصوبے جو کہ پنجاب کی حد تک تھے ان کو برطانوی پارلیمنٹ کی امدادی کمیٹی نے سراہا ہے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ اب چونکہ پورے پاکستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اپنی پالیسیاں نافذ کرکے عوام کو بنیادی ضروریات کی فوری سہولتیں فراہم کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی لہذا نئی حکومت کی ترجیحات میں جہاں دہشت گردی کے خلاف نئی حکمت عملی وضع ہو گی وہاں ملک کے عوام کو فوری طور پر ریلیف بھی فراہم کرنے کا ہنگامی پروگرام وضع ہونا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ ملک کا لوٹا ہوا سرمایہ جو کہ بیرون ملک مختلف بینکوں میں پڑا ہے واپسی کیلئے بھی اقدامات ہونے چاہئیں اب صدارتی استحقاق کو ختم ہونا چاہئے کم از کم آصف علی زرداری کی وہ دولت جو کہ سوئٹزر لینڈ سے دیگر ممالک میں منتقل ہو چکی ہے اس کی پاکستان واپسی کیلئے عملی اقدامات ہونے چاہئیں اسی طرح رحمن ملک اور حسین حقانی جیسے لوگوں کی ماضی میں قومی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں کو بھی بے نقاب ہونا چاہئے۔ قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کیلئے اور پھر خاص طور پر بھارت، افغانستان اور امریکہ کے ساتھ آئندہ کے تعلقات کے حوالے سے جامع پالیسی مرتب ہونی چاہئے چین اور دیگر دوست ممالک کے ساتھ بھی فوری طور پر شٹل ڈپلومیسی کا آغاز ہونا چاہئے تاکہ امریکہ کے ساتھ برابری کے بنیاد پر پاکستان کی خارجہ پالیسی از سر نو مرتب ہو سکے کشمیر کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر اجاگر کیا جانا چاہئے۔
سابق حکومت اور اس کے اتحادیوں کو قومی انتخابات میں جس شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے یہ پاکستان کے تمام سیاستدانوں کیلئے وارننگ ہے۔
اب کارکردگی اور عوام کے ساتھ باہمی رابطہ اور عوام دوست پالیسیاں ہی پاکستانی سیاست میں اہم قرار پائیں گی اب اقتدار کے ایوانوں میں گٹھ جوڑ اور وزارتوں کی بندر بانٹ اور ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں قومی خزانے میں خیانت کا دور ختم ہونا چاہئے عوام کے حکمران بن کر حکومت نہ کی جائے عوام کے حقیقی قائد اور خادم بن کر عوام کی خدمت کی جائے۔ میاں نواز شریف کو نیا پاکستان اور عوام کو عوامی قیادت مبارک ہو اور اب پاکستان حقیقت میں ”کھپے“!
 

ای پیپر دی نیشن