پارسائی

May 13, 2014

فضل حسین اعوان....شفق

شَیخ کے حدِ نظر تک پھیلے فارم ہائوس کی معمولی کنسٹرکشن اور ریپیئر کا جس کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا اس میں پاکستانی بھی شامل تھے۔ فارم ہائوس کے اندر کہیں اونٹ تھے کہیں ہاتھی شیر اور گھوڑے نظر آ رہے تھے۔ بکریاں چَر اور ہرن قلانچیں بھر تھے۔ عقاب سے لے کر طوطے، کبوتر اور مور جیسے پرندوں نے ماحول کو دلفریب بنا دیا تھا۔ امارات کے شیخ کے ملازمین نے بتایا کہ اس فارم ہائوس میں دنیا کا تقریباً ہر جانور اور پرندہ موجود ہے۔ پاکستانیوں نے حیران ہوکرکہا شیخ اپنے شوق پر اس قدر دولت لٹا رہا ہے!۔ شیخ کے ملازمین نے اس سوال پر اپنی ناگواری چھپاتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ شیخ کو جانوروں سے عشق ہے۔ وہ تو کبھی کبھار یہاں آتے ہیں۔ فارم ہائوس میں 6 ہزار ملازم ہیں۔ شیخ کو ان کے روزگار سے دلچسپی ہے۔جانوروں کے لئے شیخ نے ملازم اور ملازموں کے لئے جانور رکھے ہوئے ہیں۔ اس کمپنی نے ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ وہاں کام کیا اور دونوں ٹائم کھانا اور چائے وغیرہ فارم ہائوس کی طرف سے فراہم ہوتی رہی جس کا کنٹریکٹ میں ذکر نہیں تھا۔ شیخ کی طرف سے فارم ہائوس میں کسی بھی مقصد کے لئے آنے والوں کی تواضع کی ہدایت کی گئی ہے۔ خال خال ہی سہی ایسے امرا دنیا کے ہر خطے میں پائے جاتے ہیں۔ تاہم ایسوں کی بھی کمی نہیں جو اپنی دولت شراب، شباب اور جوئے کے ندی نالوں میں بہاتے ہیں۔
 نئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ’’ سرمایہ داروں، جاگیرداروں کے خلاف جلد لاہور یا اسلام آباد میں میدان حشر لگے گا، سب سے حساب لیں گے۔‘‘ جس سرمایہ دار اور جاگیردار نے مزدوروں اور مزارعوں کا خون سے اپنے محلات کو روشن کیا ان کا حشر تو یقیناً ہونا چاہئے مگر سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کرکے حشر برپا کر دینا قرین انصاف نہیں۔ ان کو الگ کر دیں جن کو خدا نے کسی کی روزی روٹی کا وسیلہ بنایا ہے۔ پاکستان میں بلاشبہ ایسے بے شمار شاہکار موجود ہیں۔ ویسے دعویٰ پارسائی تو ہر کسی کو ہے لیکن عمومی رویہ یہی ہے کہ جس کا جہاں تک بس چلتا ہے وہ اپنے اختیارات وامارت میں اضافے میں بس نہیں کرتا۔ بعض تو خدا کو بھی بھول جاتے ہیں۔وقتی مفاد کی خاطر دائمی اصولوں کو تیاگ دیتے ہیں۔ مشرف کے 1999ء کے اقدام کو جائز قرار دینے میں مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد مجلس عمل نے کچھ زیادہ ہی پھرتیاں دکھائیں۔ پیپلز پارٹی، نواز، ق لیگ، متحدہ اور اے این پی جیسی جماعنوں کی لیڈر شپ کی ’’دیانت‘‘ کبھی سوالیہ نشان نہیں رہی۔ مذہبی جماعتوں کی لیڈر شپ مشرف کی حمایت میں کچھ نہیں، بہت کچھ دیکھ کر گری تھی۔
جس کا جہاں تک بس چلتا ہے وہ بڑا ہوکر مزید بڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ درست سمت اختیار کرکے اس خواہش کی تکمیل میں کوئی حرج نہیں۔ دوسروں کے حقوق کی قیمت پر ایسا ہو ،پھرلعن طعن تو ہوگی ۔ بیوہ اپنے میٹرک پاس بیٹے کو ریلوے کے بڑے افسر کے گھر لے گئی۔ دوپٹہ پھیلا کر اسے نوکری دلانے کی التجا کی۔ نوجوان 4 بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ افسر نے خدا ترسی کرکے ملازم رکھوا دیا۔ نوجوان میں ٹیلنٹ تھا۔ محکمے میں درجہ پاتا اور مزدوروں کے دل میں مقام بناتا گیا۔ یونین نے اپنا عہدیدار چنا تو گھر میںہُن برسنے لگا۔ اہلیت و انسانی ہمدردی بدمعاشی میں ڈھل گئی۔ مخالفوں کو بد سے بد تر انجام تک پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔ یہ صرف ریلوے کے کسی دور کے عہدیدار ہی پر موقوف نہیں، پی آئی اے، سٹیل مل سمیت سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں کی یونین کے عہدیداروں کا رویہ یکساں سفاکانہ ہوتا ہے، البتہ ان کو بھی پارسائی کے دعوئوں سے کوئی نہیں روک سکتا۔ البتہ برے لوگوں کے درمیان اچھے لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں۔
فوج کو ملکی وسائل پر دسترس کا دوش دیا جاتا ہے۔ تھوڑا فرق کریں۔ فوج میں 90 فیصد سے زائد چھوٹے رینک کے لوگ ہیں۔ ان میںسے کئی ریٹائرمنٹ کے بعد ریڑھی لگائے نظر آئیں گے۔ بہت بڑا کاروبار کیا تو کریانے کی دکان بنا لی۔ فوج کے وسائل پر جرنیلوں کی دسترس ہے۔ مارشل لا لگانے اور اقتدار میں آنے والے چند جرنیل ہیں۔ سقوط ڈھاکہ جرنیلوں کی نااہلی کی وجہ سے ہی قوم کے ماتھے پر کلنک بنا۔ ایسے جرنیل بھی ہیں جنہوں نے جمہوریت کو آکسیجن فراہم کی۔
اگر سیاستدان خود جمہوریت کا سر قلم کرنے پرآمادہ ہوں تو قصور فوج کا ہے نہ جرنیلوں کا۔ بہرحال جرنیلوں میں کرپشن کے سرایت کرنے کے ثبوت بھی قوم کے سامنے آتے رہے ہیں۔ جنرل کیانی نے ان جرنیلوں کے کورٹ مارشل کا عندیہ دیا تھا جو اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث قرار دیئے گئے تھے یہ بھی خود کو پارسا قرار دیتے ہیں۔ 
ایک جج کے بیٹے کو ایکسائز ڈائریکٹر کی موجودگی میں ناکے پر روکا گیا اس کے پاس کاغذات نہیں تھے۔ بیٹے نے ابا جی کو فون کیا تو دوسری گاڑی آئی۔ ڈائریکٹر کو اٹھا کر حوالات میںبند کر دیا۔ سیکرٹری کی منت سماجت اور ڈائریکٹر کی طرف سے تحریری معافی مانگنے پر معاملہ رفع دفع ہوا۔ ایک جج ’’کمائی‘‘ سے دیگر جائیدادوں کے علاوہ پانچ چھ کوٹھیاں تعمیر کرائیں۔اس پر تو کسی نے نہ پوچھاالبتہ خدا کی بے آواز لاٹھی ریلوے کا جعلی ووچر بنوانے پر برس گئی۔ ایماندر جج ضرور موجود ہیں، عدلیہ کو بدنام اثاثے بنانے والوں نے کیا جس میں کچھ کی اولادیں بھی بقدر حیثیت و مرتبہ حصہ لیتی رہی ہیں، دعوی ان کو بھی پارسائی کا ہے۔
جرنلسٹ بھی اختیار ہاتھ میں آئے تو خیر نہیں کرتے۔ پلاٹوں کی تقسیم کاری کا موقع ملا تو رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی نواز دیا گیا۔ سنا ہے کئی پکوڑے فروش بھی پلاٹوں کی گنگا میں اشنان کر چکے اور بہت سے صحافی اپنے حق سے محروم ہیں۔ ایک صحافی تنظیم نے بہترین کارکردگی پر گزشتہ دنوں ایوارڈ تقسیم کئے ان میں جینوئن کے ساتھ سفارشی بھی موجود تھے ۔ایک خاتون اینکر کو ان کے بالوں کی زیبائش پر ایوارڈ کا حق دار قرار دے دیا گیا۔ حکومت بدلتی ہے تو صحافیوں کی کارکردگی بھی بدل جاتی ہے۔ پیپلز چند ایک اصل حقداروں کے علاوہ سفارشیوں اور اس کی حمایت میں لکھنے والوں کو ایوارڈ کا حق دار سمجھتی ہے۔ نواز لیگ کو قصیدہ خواں ہی نظر ہی آتے ہیں آتا۔ ایسے ایوارڈ دراصل ان کی اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی کے باعث ملتے اور جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔ معاشرے کے دیگر حلقوں اور طبقوں میں بھی یہی دوعملی سکہ رائج الوقت ہے۔ جس کا جہاں بس چلتا ہے عموماً خیر نہیں کرتا جبکہ دعویٰ پارسائی کا کیا جاتا ہے ۔

مزیدخبریں