جناب رسولِ خدا ؐ نے فرمایا ہے کہ محنت کش اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں۔ مطمئن کارکن بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مطمئن کارکن کیلئے ضروری ہے کہ اُن کی جائز ضروریات زندگی پوری کرنے کیلئے اُسے معقول اُجرت ادا کی جائے۔ ان کے کام کے حالات کار محفوظ و صحت مند رکھنے سے انہیں حادثات و پیشہ وارانہ بیماریوں سے محفوظ رکھا جائے۔ انہیں بڑھاپے میں پنشن، بیماری، حادثے کی صورت میں علاج معالجہ کی معقول سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ انہیں اپنے کام کی احسن سرانجام دہی پر مناسب احترام دے کر حوصلہ افزائی کی جائے۔ ان کے ضمانت آدہ آئینی حقوق انجمن سازی و اجتماعی سودا کاری کے حقوق حاصل ہوں۔ مختلف صنعتی اداروں کے تجربات سے واضح ہوا ہے جہاں انتظامیہ ان عوامل کو کارکنوں کے کام پر یقینی بناتی ہے وہاں ادارے کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ ان مقاصد کی تکمیل و تقویت کیلئے ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کام پر کارکنوں کو باوقار کام مہیا کرانے کیلئے ترقی پسندانہ اصلاحات کا نفاد کر کے ان پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔
حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک فیصلہ میں رائے دی ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں چار افراد کے کنبہ کو صرف خوراک کیلئے مبلغ 18 ہزار روپے ماہانہ خرچہ ہے جبکہ دیگر بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے مزید خاصی رقم درکار ہے لیکن ہمارے ملک میں کارکنوں کی اس مہنگائی کے دور میں کم از کم اُجرت صرف دس ہزار روپے ہے جس پر بعض آجر ان پر عمل نہیں کرتے۔ حکومت کا فرض ہے کہ مہنگائی کے مطابق اُجرتوں میں اضافہ کر کے اس پر سختی سے عمل کرائے۔
اسی طرح ہمارے کئی صنعتی اداروں میں کام کا ماحول غیر صحت مند ہونے کی وجہ سے کارکن المناک حادثات اور پیشہ وارانہ بیماریوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ پچھلے سال بلدیہ ٹائون کراچی میں فیکٹریز ایکٹ 1934ء کے تحت فیکٹری میں آگ لگنے کی صورت میں حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں کارکن بمعہ خواتین آگ میں جل کر موت کا لقمہ بن گئے۔ اس لئے وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت کی اصلاح کیلئے مؤثر اقدامات کرے۔ ملک میں کارکنوں کو رہائش کی سہولت اور ان کے بچوں کی تعلیم کیلئے ورکرز ویلفیئر فنڈ آرڈیننس 1971ء کا نفاذ کیا گیا جس میں آجر ان کی 2 فیصدی بنیادی تنخواہ کی رقم جمع کراتے ہیں۔ اس فنڈ میں 73 ارب روپے وفاقی وزارت خزانہ کے پاس جمع ہیں لیکن ان کا کارکنوں کے بہبود کیلئے استعمال نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے کارکن رہائش اور بچوں کی تعلیم کے وظائف اور قانون کے تحت موت اور شادی کے موقع پر مقرر کردہ رقوم حاصل نہیں کر رہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ اس کی فوری اصلاح کر کے کارکنوں کی بہبود کے قانون پر عمل کرائے۔ بڑھاپے پنشن کے قانون 1976ء کے تحت صنعتی و کمرشل اداروں میں تعینات کارکن کو ریٹائرمنٹ پر کم از کم اُجرت مبلغ 3600/- روپے ماہوار ملتی ہے جو کہ بڑھاپے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ کارکنوں کی بڑھاپے میں مہنگائی کے مطابق بڑھاپے کی پنشن میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کیلئے اقدامات کرے۔
حکومت پاکستان نے یورپین ممالک میں اپنی مصنوعات کی برآمدات کیلئے جی ایس پی۔ ون درجہ کی سہولت کی ہے جس کے تحت پاکستان مصنوعات پر برآمدی ٹیکس قابل ادا نہیں ہو گا۔ اس سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس معاہدہ کے تحت کارکنوں کے بنیادی حقوق کی آئی ایل او کنونشنوں کے اصولوں پر سختی سے عمل کرائے۔ خدانخواستہ اس پر عملدرآمد نہ ہونے سے یورپین یونین یہ سہولت واپس لے سکتی ہے اس لئے حکومت کا فرض ہے کہ وہ وسیع تر قومی مفاد میں کارکنوں کے بنیادی حقوق کی پاسداری کرا کر اس سہولت سے مکمل استفادہ حاصل کرتی رہے تاکہ قومی مصنوعات کی برآمدات سے کارکنوں کو روزگار کے حصول کے بہتر مواقع حاصل ہوں۔ خدا ہمیں ان مقاصد کی تکمیل کرنے میں کامیاب فرمائے۔ آمین!
کارکنوں کی فلاح و بہبود سے بہتر کارکردگی
May 13, 2014