قائداعظم.... لاعلمی، تجاہل عارفانہ یا خبث باطن؟

(گزشتہ سے پیوستہ)

امر جلیل صاحب کو شاید یہ بھی علم نہیں کہ 22فروری 1948ءکو مرکزی مجلس دستور ساز کا پہلا باقاعدہ اجلاس قائداعظمؒ کی صدارت میں ہوا تھا اور 23فروری کو دستور ساز اسمبلی کے اراکین نے حلف وفاداری اٹھایا تھا۔ اسی روز فیڈرل کورٹ آف پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ محترم امر جلیل دہرائے چلے جاتے ہیں کہ ”منتخب قانون ساز اسمبلی عدم موجود تھی۔ قومی زبان کا فیصلہ کرنا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ یہ فقرے پڑھ کر دوستو! میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ کیا سچ مچ امر جلیل صاحب نہیں جانتے کہ پاکستان کی مقتدر مجلس دستور ساز اسمبلی نے 25 فروری 1948ءکے دن اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا تھا اور اسمبلی میں وزیراعظم لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ صرف اردو ہی پاکستان کی سرکاری زبان ہو گی۔ ذرا وقت نکال کر دستور ساز اسمبلی کی کارروائی ملاحظہ فرما لیجئے۔ چند ایک بنگالی اراکین کے علاوہ مشرقی و مغربی پاکستان کے اراکین کی بہت بڑی اکثریت نے اسکی حمائت کی تھی اور قائداعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل اس پر دستخط ثبت کئے تھے۔ چنانچہ جب قائداعظم مارچ 1948ءمیں مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران اردو کی بحیثیت سرکاری زبان حمائت کر رہے تھے تو وہ دستور ساز اسمبلی کے فیصلے کی نمائندگی کر رہے تھے۔ خزانہ خالی والا فتویٰ بھی خوب رہا۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ 28فروری 1948ءکو وزیر خزانہ غلام محمد نے پاکستان کا پہلا بجٹ دستور ساز اسمبلی میں پیش کر کے پاکستان کے معاشی استحکام کی بنیاد رکھ دی تھی۔ پھر اگلے سرپلس بجٹ نے تو دھوم مچا دی تھی۔ صدمے کی بات ہے کہ امر جلیل صاحب سمجھتے ہیں کہ مطلبی اور مکار بیوروکریسی نے قائداعظمؒ سے قومی زبان کا اعلان کروا دیا۔ یہ بات صرف ایسا شخص لکھ سکتا ہے جو نہ قائداعظمؒ کی شخصیت کو سمجھتا ہے، نہ انکے وقار اور مقام سے آگاہ ہے اور نہ ہی اسے یہ علم ہے کہ مکار بیوروکریسی ان کے سامنے دم مارنے کی بھی جرا¿ت نہیں رکھتی تھی۔ حضور! وہ قائداعظمؒ تھے، صدر زرداری یا صدر ممنون حسین نہیں تھے۔
یہ بات واضح ہو چکی کہ اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کا فیصلہ پاکستان کی (Sovereign) دستور ساز اسمبلی نے قانون سازی کے ذریعے کیا تھا نہ کہ قائداعظم نے۔ جو لوگ تحریک پاکستان، مسلم لیگ کی جدوجہد، ہندو مسلم کشمکش پہ نظر رکھتے ہیں انہیں علم ہے کہ آزادی سے قبل مسلم لیگ مسلسل اردو کی حمائت کرتی رہی تھی اور ہندی کے مقابلے میں اردو کے حق میں قراردادیں منظور کرتی رہی تھی۔ 25فروری 1948ءکو دستور ساز اسمبلی کا فیصلہ اسی سلسلے کی کڑی اور پاکستان کے معروضی حالات کی ضرورت تھی۔ اس کے خلاف احتجاج کا ذکر بعد میں کروں گا پہلے یہ سمجھ لیں کہ قائداعظمؒ نے کیا کہا تھا اور ان کا مدعا کیا تھا؟
اکثر لوگوں کو علم نہیں کہ قائداعظم کے ڈھاکہ جانے سے کئی ہفتے قبل مشرقی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی صوبے کیلئے بنگالی کو سرکاری زبان قرار دے چکی تھی۔ مرکزی حکومت کی پالیسی یہی تھی کہ صوبے جس زبان کو چاہیں اپنے لئے اختیار کر لیں لیکن مرکز اور بین الصوبائی خط و کتابت یا رابطے کیلئے اردو استعمال کریں کیونکہ یہ واحد زبان ہے جسے پورے ملک میں بولا اور سمجھا جاتا ہے۔ یہی وہ صورت ہے جو آجکل بھی موجود ہے۔ قائداعظم نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے کانووکیشن سے خطاب میں صوبائیت کو قومی یکجہتی کے خلاف خطرہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ ”صوبہ اپنے لئے جو چاہے زبان منتخب کر سکتا ہے‘ اس مقصد کیلئے قانون ساز اسمبلی موجود ہے لیکن قومی سطح پر رابطے کی زبان۔ سرکاری زبان اردو ہی ہوگی۔ ذرا ان کے الفاظ ملاحظہ فرمایئے:
''There can, howver, be only one Lingua Franca , That is The language for inter communication between The various provinces of state and that languge shoued be urdu''
(بحوالہ قائداعظم کے بیانات مرتبہ خورشید یوسفی جلد چہارم صفحہ نمبر 2725)
اب آپ خود غور کریں کہ اگر ہر صوبہ اپنی زبان میں مرکزی حکومت سے یا صوبوں سے خط و کتابت کرتا تو کیا حشر برپا ہوتا؟ ویسے بھی یہ بات مستقبل کی تھی کیونکہ اس وقت انگریزی ہی سرکاری خط و کتابت کی زبان جو آج بھی ہے۔ قائداعظمؒ نے واضح کر دیا تھا کہ صوبے اپنے لئے جو چاہے زبان اختیار کر لیں۔ اس کو ذریعہ تعلیم بنائیں اور اپنے ادب و ثقافت کو پروان چڑھائیں لیکن صرف مرکز اور صوبائی حکومتوں سے رابطوں کیلئے ایک زبان استعمال کریں۔ اسی لئے قائداعظم نے چٹاگانگ میں کہا تھا کہ وہ قوت جو قیام پاکستان کی مخالف تھی‘ اب ناکامی کے بعد صوبائیت اور لسانیت کے بیج بو رہی ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ قائداعظم نے اردو کو اسٹیٹ لینگوئج کہا‘ اسے قومی زبان نہیں کہا۔
انہوں نے اردو کو سرکاری حوالے سے بین الصوبائی و مرکز کے رابطے کی زبان قرار دیا۔ ذرا لغت سے (Lingua Franca) کے معانی دیکھ لیں۔ یہ بات واضح ہو جائیگی لوگ اپنے حقوق کیلئے جدوجہد ‘ احتجاج اور جلوس نکالتے رہتے ہیں‘ لیکن ان سے کبھی ملک نہیں ٹوٹتے۔ یہ جمہوری کلچر کا حصہ ہوتے ہیں۔ امر جلیل صاحب نے بار بار قائداعظمؒ کے اعلان کو ملک ٹوٹنے کا سبب قرار دیا ہے کیونکہ وہ ہرگز نہیں جانتے کہ جب مشرقی پاکستان میں لسانی تحریک چلی تو 1954ءمیں یعنی چھ سال بعد دستور ساز اسمبلی نے بنگالی یا بنگلہ کو بھی قومی زبان تسلیم کر لیا تھا اور یوں یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوکر اپنے انجام کو پہنچ گئی تھی۔ ڈھاکہ کی سڑکوں پر جس خون بہنے کا نقشہ امرجلیل صاحب نے بیان کرکے اسے قائداعظم کے کھاتے میں ڈال دیا ہے‘ وہ قائداعظمؒ کی وفات کے چار سال بعد کا قصہ ہے۔ جب 1952ءمیں بنگالی وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے ڈھاکہ کے جلسہ عام میں اردو کو واحد قومی زبان قرار دیا۔ اس کےخلاف احتجاج ہوا اور ہلاک شدگان کی یاد میں شہید مینار بنا۔ پاکستان کے پہلے دستور (1956) میں اردو اور بنگالی دونوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیدیا گیا اور یو یہ تنازع ہمیشہ کیلئے حل ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی اکثریتی پارٹی کو 1971ءمیں اقتدار منتقل نہ کرنے‘ پھر آرمی ایکشن اور سب سے بڑھ کر بھارتی مداخلت کے سبب ملک ٹوٹا نہ کہ لسانی مسئلے کے سبب۔ کیا کبھی آپ نے مجیب الرحمن کی تقریروں میں لسانی مسئلے کا ذکر سنا؟ جو مطالبہ تیرہ برس پہلے پورا کر دیا گیا تھا اور دستور کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ کیا وہ اتنے عرصے بعد ملک توڑنے کا باعث بن سکتا تھا؟ دوسرے ممالک میں سیاسی تحریکوں کے دوران اس سے کہیں زیادہ خون بہا۔ کیا ان میں سے کوئی ملک ٹوٹا۔ ہندوستان میں کتنی ہی تحریکوں کو کچل دیا گیا۔ خون کی ندیاں بہہ نکلیں۔ کیا ہندوستان ٹوٹ گیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی تلخ حقیقت ہمارا جغرافیہ ہے۔ اگر مشرقی پاکستان کے بحران میں ہندوستان فوجی مداخلت نہ کرتا اور اپنی فوج کے ساتھ نہ چڑھ دوڑتا تو مشرقی پاکستان کبھی الگ نہ ہوتا۔ اس حوالے سے ”را“ نے جو کھیل کھیلا‘ وہ چند برس پہلے بنگلہ دیش کی وزیراعظم اور شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی اپنے انٹرویو میں نہ صرف بیان کر چکی ہیں بلکہ عینی شاہد کی حیثیت سے تصدیق بھی کر چکی ہیں۔ پاکستان ٹوٹنے کی داستان پڑھنا چاہتے ہیں تو میری کتاب ”پاکستان کیوں ٹوٹا“ پڑھیں جس کا کئی زبانوں کے علاوہ سندھی میں بھی ترجمہ دستیاب ہے۔ خدا کیلئے قائداعظمؒ کی شخصیت کو خبث باطن کا نشانہ نہ بنائیں اور تاریخ کو مسخ نہ کریں۔ ان موضوعات پر لکھنے اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے سے قبل کم سے کم اپنی تاریخ ہی پڑھ لیا کریں تاکہ آپکے عالمانہ مقالے بنیادی غلطیوں سے پاک ہوں۔ قائداعظم پاکستان بنانے والے تھے۔ انہیں پاکستان توڑنے کا الزام نہ دیں۔ وہ زندہ رہتے تو ملک کبھی نہ ٹوٹتا۔ وہ ہمارے بابائے قوم ہیں اور ہر پاکستانی ان کا احسان مند اور مرہون منت ہے۔ انکے احسان کا بدلہ یوں نہ چکائیں۔ یہ میری دردمندانہ گزارش ہے۔ مانیں نہ مانیں آپ کی مرضی لیکن جب بھی کوئی دانشور بانی¿ پاکستان پر کنکر پھینکے گا‘ میں اپنی بساط کےمطابق انشاءاللہ اس کا جواب دوں گا۔

ای پیپر دی نیشن