سابق صدرجنرل (ر) پرویز مشرف سے خصوصی انٹرویو

نوائے وقت پینل

سعیدخاور /شہزادچغتائی
تصاویر:احمد علی خان


جنرل (ر)پرویزمشرف کم وبیش نوبرسوں تک چیف آف آرمی اسٹاف ٗچیف ایگزیکٹو اورصدرپاکستان جیسے کلیدی عہدوں پرفائزرہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے انہیں دوجرنیلوں پر ترجیح دے کر6اکتوبر 1998ء کوافواج پاکستان کاسربراہ بنایا۔مگر 1999ء میں بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے دورہ پاکستان کے بعدجب کارگل کے قضیہ نے سراٹھایاتو انہیں اس وقت اس مہم جوئی پر اچانک شہ سرخیوں میں جگہ مل گئی ۔ جس کا نتیجہ بعد ازاں 12اکتوبر1999ء کو وزیر اعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کی برطرفی کی صورت میں نکلا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد نائین الیون کاواقعہ رونماہواتودہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی اتحادی بن کر جنرل پرویزمشرف نے ایک بارپھردنیابھرکے ٹی وی چینلوں اوراخبارات کی اہم خبروں میں جگہ بنالی۔ان کے دوراقتدارمیں محترمہ بینظیربھٹو اورنواب اکبر بگٹی کی ہلاکت سمیت دیگر کئی ایک اہم واقعات بھی ہوئے ۔ پھر اسی کشمکش میں 28نومبر2007ء میں فوج سے ریٹائرمنٹ اور18اگست2008ء کو صدارتی منصب سے علیحدگی کے بعد وہ بیرون ملک چلے گئے اور لوٹ کروطن آنے پرانہیں کئی ایک مقدمات کاسامنا کرنا پڑاجوابھی تک زیرسماعت ہیں۔ آل پاکستان مسلم لیگ‘ کے سربراہ جنرل مشرف ان دنوں زمزمہ پارک کراچی میں جرنیلوں کی بستی میں واقع اپنے بنگلہ میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاررہے ہیں۔ جہاں انہیں عدالتی کارروائی اور معتوب ہونے کے باوجود ان دنوں بھی ملکی سیاست کے حوالے سے خبر و نظر تک ہر ممکن رسائی حاصل ہے ۔ گزشتہ دنوں ہم نے سابق صدرجنرل(ر) پرویز مشرف سے تفصیلی انٹرویوکیا جوان کی وطن واپسی کے بعدکسی اخبارکے لئے پہلاخصوصی انٹرویوہے:
سوال:جنرل صاحب!پاکستان کی جیوپولیٹیکل اہمیت کے پیش نظر ملک ہمیشہ اندرونی وبیرونی بحرانوں کی لپیٹ میں رہتا ہے‘ پاکستان کی موجودہ صورتحال پر آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
جواب: سوال بہت اہم ہے‘ اس کا جواب خاصا طویل ہوجائے گا لیکن میں اختصار کے ساتھ بات کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ تشویشناک میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ حکومت اس بحران سے نکلنے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کرپارہی۔کیا فائدہ ایسے ملک کا اور ایسی حکومت کا کہ ملک ترقی نہ کررہا ہو اور عوام خوشحال نہ ہوں۔ ہم جس خطے میں رہتے ہیں‘ اس کی منفرد جغرافیائی حیثیت ہے۔ ہمارے مغرب میں ایران ہے‘ جس کا امریکہ کے ساتھ جوہری تنازعہ چل رہا ہے‘ دوسری جانب خلیج ہے جہاں کوئی نہ کوئی افراتفری رہتی ہے‘ اب یمن میں خانہ جنگی چل رہی ہے۔ شمال میں افغانستان ہے اور اس کے اوپر دیکھیں تو وسط ایشیائی ریاستیں ہیں۔ مشرق کی جانب نظر دوڑائیں تو بھارت ہمارا بڑا مخالف ہے۔ یہ ہماری حکمت عملی پر منحصر ہے کہ ہم اس جغرافیہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا نقصان۔
سوال: حکومت اور منتخب پارلیمان بھی اگر اردگرد کی صورتحال کو ہمارے حق میں سازگار نہیں بناسکی اور عام آدمی مشکلات سے دوچار ہے تو، اس حوالے سے آپ حکومت کی کارکردگی کو کس طرح سے جانچتے ہیں؟
جواب:حکومت ناکام ہوچکی ہے‘ ہرشعبے میں اس کی کارکردگی صفر ہے۔ عوام کو اطمینان دلانے میں چاروں صوبے ناکام ہیں۔ ملک کی ترقی زراعت اور واٹر مینجمنٹ سے منسلک ہے، معاشی ترقی مواصلات‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں پیش رفت ہونی چاہیے۔مگر میں نے جن شعبوں کا ذکر کیا ہے‘ ہرشعبہ تنزلی کاشکار ہے۔ موجودہ حکومت کی ترجیحات کچھ اورہیں۔ معیشت روبہ زوال ہے‘ خسارہ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ ہم نے 36ارب ڈالر کے قرضے چھوڑے تھے‘ جواب 75ارب ڈالر تک جاپہنچے ہیں۔
سوال: فوجی اقتدار کے مخالفین کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان کے دور میں امریکی غلامی کاآغاز ہوا‘ جنرل یحییٰ خان کے دور میں ملک دولخت ہوا‘ جنرل ضیاء الحق کے دورمیں سیاسی بدعنوانی‘ ہیروئن کلاشنکوف کے تحفے ملے اورآ پ نے ملک میںامریکی مداخلت کی اجازت دی،آپ فوجی اور سیاسی ادوار کا موازنہ کس طرح کرتے ہیں۔
جواب: جنہیں کوئی اورموضوع نہیں ملتا‘ وہ عوام کو اس طرح کی باتوں میں الجھا کر گمراہ کرتے ہیں۔ میرا اور ایوب خان کا دور اس لحاظ سے منفرد رہا کہ جتنی ترقی ان دو ادوار میں ہوئی اس کی مثال اڑسٹھ سال میں نہیں ملتی۔ ہمارے ادوار میں امریکی مداخلت کا راستہ کھلنے کا سوال ٗپروپیگنڈہ سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس قسم کی فضول باتوں کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا ہے۔چاہے میں امریکہ کو گالیاں دوں یا دوستی کروں‘ چین سے دوستی کروں یا نہ کروں‘ روس سے میں کچھ بھی معاملات طے کروں‘ بھارت سے جنگ کروں یا نہ کروں‘ اصل مطمع نظر عوام کی ترقی اورخوشحالی تھی جس کیلئے میں کام کررہا تھا۔
سوال: جنرل صاحب ! آپ نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے معاملہ فہمی کی راہ اختیار کی اور این آر او دیا‘ اس کے بعد جب وہ پاکستان آئیں توشہید کردی گئیں۔ آپ بھی ملک سے باہر بیٹھ کر اپنی سیاسی جماعت کو منظم کررہے تھے‘ مخالفوں کے دور میں آپ بھی وطن واپس آکر مسائل میں گھر گئے، آپ کے اس جذباتی فیصلے کے پیچھے کون تھا‘ ‘ کیا آپ کو اس فیصلے پر کوئی پچھتاوا تو نہیں؟
جواب:نہیں!مجھے اپنے وطن آکرکوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ جہاں تک آپ نے بے نظیر سے معاہدے کی بات کی‘ وہ معاہدہ یہ تھا کہ وہ وطن واپس نہیں آئیں گی اور ان پر تمام کیسز ختم ہوجائیں گے۔ میرا ان سے ون آن ون معاملہ طے ہوا تھا کہ وہ انتخابات سے قبل پاکستان نہیں آئیں گی۔ چنانچہ کیسز ختم کرنے کے لئے طے پا گیا تو اس معاہدہ کو لاء ڈیپارٹمنٹ نے این آر او کا نام دیا۔ بعد میں وہ معاہدہ توڑ کر وطن واپس آگئیں اور پھران کی ہلاکت کا واقعہ رونما ہوگیا ٗ یہ بدقسمتی کی بات تھی۔جہاں تک میرا تعلق ہے‘ دیکھیں! یہ چیزیں سادہ نہیں ہوتیں‘ یہ کسی عام آدمی سے پوچھیں کہ ٹکٹ لے کر ‘ سوٹ کیس پکڑ کر پاکستان آنا ہے۔ میں ایک عام آدمی نہیں ہوں‘ میرے خیالات عام آدمی سے بڑھ کر‘ پاکستان کی سوچ پر مبنی ہیں۔ ذاتی سطح پر بھی دیکھا جائے‘ تو مجھ پر جو مقدمات قائم کئے گئے‘ مجھے ان مقدمات سے نمٹنا تھا۔ جب کبھی بھی میں پاکستان آتا‘ مقدمات کا تو سامنا کرناتھا ۔یا تومیں فیصلہ کرلیتا کہ میں کبھی پاکستان آئوں گا ہی نہیں‘ تو پھرٹھیک ہے ، ورنہ اس ملک سے میری وابستگی ہے۔ اس لئے میں نے وطن واپس آ کرصورت حال کا سامنا کیا ہے۔ سوال: آپ نے این آر او کے تحت قتل کے کیس تک معاف کردئیے‘ آصف علی زرداری اورپیپلزپارٹی والوں پرسنگین مقدمات تھے‘ آپ نے انہیں رعایت دے کر معاف کرادیا لیکن انہوں نے معاہدہ توڑدیا تو کیا اس معاہدہ میںکوئی سقم تھا؟
جواب: پہلی چیز تو یہ ہے کہ مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ ان پر کیامقدمات تھے۔ میرا ان سے معاہدہ ہوا تومیں نے مقدمات ختم کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد وزارت قانون اور وزیراعظم مل بیٹھے۔ انہوں نے اسے این آر اوکانام دیا اور یہ معاہدہ پایہ تکمیل تک پہنچا۔اب اس میں کون سے مقدمات تھے‘ان کی نوعیت کیا تھی‘ مجھے اس کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔جہاں تک آصف علی زرداری کورعایت دینے کا سوال ہے۔ یہ بات ٹھیک نہیں۔ ان پر نیب کے 11 مقدمات تھے‘ این آراو سے پہلے ہی وہ 8 میں بری ہوچکے تھے ۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ بدعنوانیاں ہوئیں‘ لوٹ کے گھا گئے‘ ٗ ہمارے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عدالتیں یہ باتیں نہیں مان رہیں آپ جتنا سنگین مقدمہ عدالت عظمیٰ میں لے جائیں‘ نہ کوئی ٹرائل نہ کوئی فیصلہ۔ آج کل بھی یہی ہورہا ہے۔ عدلیہ کے اس کردارسے یقیناً مایوسی ہوتی ہے۔
سوال: جنرل صاحب! آپ نے جن سیاسی بیساکھیوں کا سہارا لیا، آپ پر مشکل پڑی تو یہ سب منہ موڑ گئے‘ کیا آپ سے انسانوں کے انتخاب میں غلطیاں ہوئیں؟
جواب: نہیں نہیں! کوئی ایسی بات نہیں‘ میراا نتخاب 1999ء کی کابینہ تھی۔ آپ اس کے وزراء میں سے کسی ایک پرانگلی اٹھائیں کہ کون سا غلط انتخاب تھا۔ لیکن تین سال بعدجو لوگ آئے‘ انہیں میں کیسے لایا‘ ان کا انتخاب عوام نے کیا۔ آپ لوگوں نے ووٹ ڈال کر انہیں اسمبلیوں میں بھیجا۔ وہ جیسے بھی تھے‘ عوام کا انتخاب تھے۔یہ بات درست ہے چالیس فیصد لوگ ایسے ہیںجوہردورمیںچڑھتے سورج کودیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔
سوال: آپ کے دور حکومت سے پہلے ایم کیو ایم مشکلات کا شکار تھی‘ آپ نے ڈھارس دی اوروہ دوبارہ ایک قوت بن کرابھری موجودہ دور حکومت میں ایم کیوایم ایک بار پھرمشکلات میں ہے‘ اس تناظر میں آپ آنے والے دنوں میں ایم کیو ایم کو کہاںکھڑا دیکھ رہے ہیں؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ سیاسی قوت ہے بلکہ سندھ کی واحد اربن فورس ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس اہمیت کوپیش نظر ر کھنا چاہئے۔ نوے کی دہائی میں کراچی کی بہت بری حالت تھی۔ 1998ء میں جب میں آرمی چیف بنا‘ میں نے نوازشریف سے کہا کہ ان کے ساتھ سیاسی معاملہ فہمی رکھیں ٗانہوں نے میری بات کوخاص اہمیت نہیں دی۔ ہم نے 1999ء کے بعد وہ راستہ اختیارکیا۔انہیں کار سرکار میں لے کر آئے ٗسیاسی دھارے میں شامل کیا اور میرے خیال میں انہوں نے آٹھ سالوں میںکچھ کرکے بھی دکھایا۔ اب عمران خان سندھ میں گھسنے کی کوشش کررہا ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ یہاں کامیابی حاصل کرسکے۔ بدقسمتی سے 2008ء کے بعد جوکچھ یہاں ہورہا ہے یہ سب ایم کیوایم نہیںکررہی ‘ اس میں ساری سیاسی جماعتیں ملوث ہیں۔ مجھے وہ زمانہ یاد ہے کہ جب مہاجر پٹھان تنازعہ چل رہا تھا ٗ اب اردوبولنے والوں کے پیچھے ایم کیو ایم ہے توپٹھانوں کے پیچھے کون تھا۔ہاں! اے این پی تھی‘ یہ شاہی سید کس کے آدمی ہیں؟پھر لیاری گینگ وار شروع ہوئی‘ امن کمیٹی بنی‘ ہزاروں ہتھیار انہیں دئیے گئے‘ تووہ ہتھیار کون دے رہا تھا؟ پیپلزپارٹی اس کے پیچھے تھی۔ کراچی کامسئلہ یہ ہے کہ لاقانونیت کے پیچھے سیاسی جماعتیں ہیں۔ عزیر بلوچ یا صولت مرزا کون ہیں؟ یہ تو استعمال ہوئے ہیں نا‘ یہ تو صرف آلہ کار ہیں ٗ ان کے پیچھے تو کوئی اور ہے ۔ جب تک یہ فیکٹریاں بند نہیں ہوںگی‘ امن قائم نہیں ہوگا۔ ورنہ ایک عزیر بلوچ جائے گا دوسرا آجائے گا۔
سوال: 2013ء کے انتخابات کے بارے میں عمران واویلا مچاتے ہیں کہ یہ انتخابات شفاف نہیں تھے‘ کیا یہ انتخابات واقعی ڈھونگ تھے؟
جواب: میرے پاس براہ راست تو کوئی اطلاع نہیں ہے لیکن یہی پتہ چلتا ہے کہ ان انتخابات میں دراصل دھاندلی ہوئی ہے۔ پھر سب سیاسی جماعتیں بھی کہہ رہی ہیں اور ایک بارالیکشن کمیشن نے بھی کہاتھا کہ انتخابات غیر شفاف تھے ۔ لہٰذا میںبھی سمجھتا ہوںان انتخابات میں وسیع پیمانے پردھاندلی ہوئی ۔
سوال :ہر انتخابات کے بعد ا لیکشن کمیشن پر ہمیشہ انگلیاں اٹھتی ہیں۔ آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کی تنظیم نو کیلئے آپ کے پاس کیا تجاویز ہیں؟
جواب: ایک طاقتور الیکشن کمیشن قائم کرکے دھاندلیوں کا راستہ روکاجاسکتا ہے۔ ایک تو اب ملک میںالیکٹرانک سسٹم رائج ہوناچاہیے۔ دوسرا میری تجویز ہے کہ عام انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں اس سے دھاندلی کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔ لیکن ملک کی افسر شاہی اور سیاسی جماعتیںنہیں چاہیں گی کہ انتخابات فوج کی نگرانی میں ہوں‘ اس لئے کہ یہ دھاندلی سے باز نہیں آسکتیں ۔
سوال:خلیج کا محاذ ایک بار پھر گرم ہے‘ یمن اورسعودی عرب باہم برسرپیکار ہیں۔ اس اس معاملے میں ہمیں کس حد تک جاناچاہیے؟
جواب:یمن کی جنگ خانہ جنگی ہے‘ جس میں گھسنا بہت خطرناک ہوگا ۔ خلیج میں عدم استحکام عالمی امن کیلئے بھی خطرے کا باعث ہے۔ ا س جنگ کے دو رخ ہیں، ایک تو سول وار ہے پھر وہاں دو قوتوں میں پر اکسی وار ہے۔ تنازع میں تیل کی وجہ بھی کارفرما ہے۔ یہ الگ بات ہے‘ اگرخدانخواستہ شیعہ سنی فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا ملی تو اس کے پوری مسلم امہ کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ایران اور سعودی عرب‘ دونوں سے ہمارا گہرا تعلق ہے۔ اگر ہم وہاں جاکر کسی ایک کا ساتھ دیں گے تو یہ بہت غلط ہوجائے گا۔ پھر بھی ا گر سعودی عرب کی سلامتی کو خطرہ ہوگا تو ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
سوال: اس تنازع پرکیا پارلیمان کی متفقہ قرارداد سے دوستی کے تقاضے پورے ہوتے ہیں؟
جواب: یہ بہت غلط ہوا ہے۔ ہم ہر چیز کو پارلیمان میں لے کر چلے جاتے ہیں اورکھلے عام ہر موضوع پر اظہار خیال کردیتے ہیں ۔کب کیا بات کرنی ہے ٗکیا نہیں کرنی،اورجو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا پیغام دوسرے ملکوں کو کیاجارہا ہے اس خیال نہیں رکھتے۔ یہ اجلاس ان کیمرہ ہوناچاہیے تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پارلیمان غور وفکر اورمباحثے کا فورم ہے نہ کہ فیصلہ کرنے کا ،فیصلہ حکومتیں کرتی ہیں۔
سوال:بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ نشیب وفراز میں رہتے ہیں‘ کشمیر کے مسئلہ پر وہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ کیاکوئی ایسا راستہ ہے جسے اپنا کر پاکستان‘ بھارت اورکشمیری عوام اطمینان کا سانس لیں؟
جواب:اس مسئلے کا باعزت حل موجود ہے اور میرے زمانے میںہم بتدریج اس حل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ہم سرکریک‘ سیاچن اورکشمیر کے یقینی حل کی طرف جارہے تھے ۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے میرے ویژن کے خدوخال پر کام ہورہا تھا۔ اس مسئلہ کے حل کیلئے قیادت میں اخلاص کا پایا جانا ضروری ہے ، دل میں چور نہیں ہوناچاہیے۔ محض فلمی مکالمے نہیں دل ودماغ اور الفاظ میں ہم آہنگی ہونی چاہیئے۔ دوسراہٹ دھرمی ہمیشہ بے نتیجہ رہتی ہے ، قیادت میں جرأت کے ساتھ ساتھ کچھ لو کچھ دو کی صلاحیت ہونی چاہیے ۔ اگر آپ خوفزدہ ہیں کہ کچھ دے دینے سے عوام جینا حرام کردیں گے تو بات نہیں بنے گی۔ اس تناظر میں بھارت کی طرف نظر دوڑائی جائے تو وہ سپرپاور بننے کی خود فریبی کاشکار ہے ۔پاکستان کو ڈرانے دھمکانے کایہ خطرناک رحجان ہے‘ اس صورتحال میں مسئلہ کشمیر حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ بھارت ہمیں دھمکیاں اور گالیاں دے رہا ہے اورہماری جانب سے انہیں ساڑھیاں اورچادریں تحفے میں بھیجی جارہی ہیں۔ اس طرح بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔
سوال :جنرل صاحب!کہتے ہیں کہ طویل رفاقت کے باوجود امریکہ اورپاکستان کے تعلقات وقتی مفادات سے جڑے ہوئے ہیں جس میں نقصان ہمیشہ ہمارا ہی ہوتا ہے؟
جواب:امریکہ کے حوالے سے ہمارے ساتھ بڑا مسئلہ ہے۔ہر وقت امریکہ کو برا بھلا کہنا فیشن بن گیا ہے۔ ہم امریکہ کے ویزے کیلئے بھی مضطرب رہتے ہیں اور انہیں برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ ہمارے امریکہ کے ساتھ سماجی اوراقتصادی رشتے ہیں۔ امریکہ اوریورپ کے ساتھ ہمارے تجارتی معاملات قابل ستائش ہیں۔ اس تناظر میں ہمارے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہوناچاہئیں۔ ہم نے امریکہ سے فائدے بھی بہت اٹھائے ہیں جبکہ کئی مقامات پرامریکی پالیسی ہمارے خلاف بھی گئی ہے ‘ بس یہی دنیا ہے جی!کہیں نقصان کہیں فائدہ۔
سوال: اگرمستقبل میں آپ کو دوبارہ موقع ملے توکیا کرنا پسند کریں گے ،ماضی کی کون سی غلطیاں ہیں جن کا کفارہ ادا کریں گے ؟
جواب: میں نے اپنے دور اقتدار میں کوئی غلطی نہیں کہ کفارہ کی نوبت آئے۔ ہاں !یہ جو این آر او ہوا‘ اس کے تحت ہمیں مقدمات سے دستبردار نہیں ہوناچاہیے تھا۔ لوگ بعض فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیںحالانکہ منطقی نتیجہ پرنظر رکھنی چاہیے ۔ میرے دور میں ہزاروں لاکھوںفیصلے ہوئے‘ ان کے نتیجے میں ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی ہوئی۔ سب سے پہلے پاکستان‘ میرا نصب العین تھا۔ ہاں کالا باغ ڈیم کا مسئلہ بہت اہم تھا، جس پر قومی اتفاق رائے ضروری ہے۔ ہمارے ہاںنام نہاد سیاسی وجمہوری حکومتیں لوٹ کھسوٹ میں ملوث رہی ہیں اس لئے نظام کی تبدیلی اورصوبوں کی تعداد میں اضافہ ناگزیر ہے۔
سوال:عمران خان 2015ء کو انتخابات کا سال قرار
دے رہے ہیں‘ وہ آپ کے سات نکاتی ایجنڈے کی حامی تھے اورریفرنڈم میں بھی آپ کے شانہ بہ شانہ کھڑے تھے۔ آپ ان کا پاکستان میں کیا سیاسی مستقبل دیکھ رہے ہیں؟
جواب: عمران خان توپہلے دن سے حکومت کے خاتمہ کی نوید سنارہے ہیں لیکن مجھے ایسا کچھ نظر نہیں آرہا ۔ اس وقت جوان کا طرزسیاست ہے‘ اس پر انگریزی محاورہ چست آتا ہے کہ ’’ایک قدم آگے تو دو قدم پیچھے‘‘ عجیب و غریب فیصلے کرتے ہیں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں،اس لئے حکومت کے جانے میں ہی پاکستان کا مفادہے۔ عمران نے اگرچہ نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب بھی کیا ہے ، اس کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ وہ تیزی سے عدم مقبولیت کی طرف جارہے ہیں۔ کیونکہ وہ تنہا پرواز کے قائل ہیںلہٰذا انہیں ان کی حالت پرچھوڑدینا چاہئے۔
سوال: منفی نواز شریف مسلم لیگی دھڑوں کے اتحاداور پاکستان میں اکثر آپ کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا ہے۔ کیا آل پاکستان مسلم لیگ یا آپ کا کوئی کردار بنتا ہے؟
جواب: لوگ میرے پاس آرہے تھے فی الوقت یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔میری ذاتی خواہش ہے اور نہ ہی کوئی ایجنڈا ۔ لیکن پاکستان کی موجودہ صورتحال پر تشویش ہے۔ اس صورتحال میں اگر میرا کوئی کردا ر بنتا ہے تو وہ کردار میں ضرور نبھاناچاہوں گا۔

ای پیپر دی نیشن