اسلام آباد + ڈھاکہ (سٹاف رپورٹر) پاکستان میں متعین بنگلہ دیش کے قائم مقام ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر ان سے شدید احتجاج کیا گیا۔ دفتر خارجہ کے مطابق ان سے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کی طرف سے بنگلہ دیش کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی پرخلوص کوششوں کے باوجود پاکستان کو بدنام کرنے کی حرکتیں باعث افسوس ہیں۔ بیان میں 1974ء کے سہ فریقی سمجھوتے کا پھر حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سمجھوتے کے تحت بنگلہ دیش یہ مقدمات نہیں چلا سکتا۔ ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے امیر کی پھانسی پر تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اس معاملے پر پاکستان کا ردعمل کمزور ہے۔ بنگلہ دیش میں عدالتی عمل پر کئی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ مطیع الرحمن کی پھانسی پر اسمبلیوں کی قراردادیں عوامی رائے کی عکاس ہیں۔ دریں اثناء بنگلہ دیش میں مطیع الرحمن کی پھانسی کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا جبکہ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جماعت اسلامی نے اپنے لیڈر کی پھانسی پر ملک گیر احتجاج اور ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرین کی پولیس کے ساتھ مڈ بھیڑ بھی ہوئی، پولیس نے آنسوگیس کے شیل پھینکے جس کے نتیجے میں بیسیوں افراد زخمی ہوگئے۔ اس پھانسی کے ردعمل میں ممکنہ مظاہروں کے تناظر میں ڈھاکہ حکومت نے دارالحکومت سمیت تمام بڑے شہروں میں سکیورٹی کو انتہائی چوکس کر رکھا ہے خاص طور پر دارالحکومت میں ہزاروں پولیس اہلکار تعینات ہیں موبائل گشت جاری ہے۔ پھانسی کے عدالتی حکم پر عمل درآمد سے قبل جماعت اسلامی کے کئی لیڈروں کو بھی سکیورٹی کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ مطیع الرحمان نظامی کے آبائی علاقے پبنا میں اس مذہبی سیاسی پارٹی کے کم از کم 16 اہم کارکنوں کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس کے مطابق شمال مغربی شہر راجشاہی میں مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس کو ربڑ کی گولیاں چلانا پڑیں۔ پولیس کے مطابق راجشاہی میں جماعت اسلامی کے قریب پانچ سو کارکن جذباتی ہو کر پولیس پر حملہ آور ہوئے انہوں نے پتھراؤ بھی شروع کر دیا۔ خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اسی شہر میں ایک لبرل پروفیسر کو مذہبی انتہا پسندوں کے ایک حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح ایک اور شہر چٹاگانگ میں جماعت اسلامی کے قریب ڈھائی ہزار کارکنوں نے جمع ہو کر اپنے لیڈر کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی اور پھر احتجاجی مظاہرہ شروع کر دیا۔ اس مظاہرے کے دوران جماعت اسلامی کے کارکنوں اور وزیراعظم شیخ حسینہ کی سیاسی جماعت کے ورکروں کے درمیان مخالفانہ نعرے بازی کے علاوہ ہاتھا پائی بھی ہوئی جہاں جہاں مظاہرے کئے گئے وہاں پر جماعت اسلامی کے ورکر شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف نعرے بازی کے علاوہ اپنے لیڈر کی پھانسی کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دے رہے تھے۔ دریں اثنا ترکی نے بنگلہ دیش میں امیر جماعت اسلامی مطیع الرحمن کو پھانسی دینے پر اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت نے مطیع الرحمن پر پاکستان کی حمایت کرنے پر غداری کا مقدمہ چلایا تھا۔ ترک صدر نے سفیر دیوریم اوزترک کی واپسی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں انقرہ پہنچنے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ احتجاجاً کیا گیا ہے۔