حمص، حلب، لتاکیہ، رقہ اور کوہانی مسلمانوں کی لاشوں سے بھرے پڑے ہیں۔ معصوم بچوں کی بے ڈھب، بے ڈھنگی اور مڑی تڑی بے گوروکفن لاشوں کا سوشل میڈیا پر شور ہے۔ درندہ صفت روسی اور اسدی فوجی معصوم بچوں کے جسموں سے ایسے کھال اتار رہے ہیں جیسے قصاب بے رحمی سے جانوروں کی کھال اتارتا ہے۔ حلب میں چارسُو انسانی اعضا بکھرے پڑے ہیں۔ قیدیوں کے اعضا کٹ کٹ کر میدان اور جیلیں بھر چکی ہیں۔
میں حلب اور حمص میں جاری مظالم دیکھ کر مزار شریف اور قلعہ جنگی کے انسانیت کو شرما دینے والے مناظر بھول کر ان سربریدہ اور بے گور و کفن لاشوں کا مرثیہ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اسدی فوج کی انتہاﺅں کو چھوتی رعونت کے زمین و آسمان عینی شاہد ہیں لیکن اب معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کی چیخ و پکار پر ابابیلیں منہ میں پتھر لیکر اتر رہی ہیں نہ ہی صلاح الدین ایوبی کا کوئی جانشین سامنے آیا ہے۔ تباہ حال انفراسٹرکچر مفلوک الحال معیشت، کھنڈر بستیاں، تباہ شدہ ادارے، 56 اسلامی ملکوں نے سفاک اور بدقماش اسدی ٹولے کو لگام دینے کی تیر و دشنام کا رخ مظلوم شامیوں کی طرف موڑ رکھا ہے۔
2010ءمیں عرب بہار کے نام سے مسلم دنیا میں سر اٹھانے والی بغاوتیں مسلمانوں کی نسل کشی کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ بشارالاسد اخلاقی اقدار سے عاری، انصاف کے مفہوم سے ناآشنا اپنی انا کے گنبد میں بند ایک خودسر اور خدا فراموش درندہ ہے لیکن اسے یاد رکھنا چاہئے کہ شامیوںکا تازہ لہو اسلامی تحریکوں کے مرجھائے چہروں کو نئی شگفتگی دے رہا ہے۔ 4لاکھ 70ہزار افراد اسدی اور باغیوں کی اقتدار کی جنگ میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ایک کروڑ 30لاکھ افراد روٹی کو ترس رہے ہیں ۔ابھی تو ہم بغداد کی گلیوں میں بہنے والے خون کو نہیں بھولے تھے کہ حلب کا ماتم کرنا پڑ گیا۔ عراق میں بزرگ ہستیوں کی قبروں کی بے حرمتی بھول نہ پائے تھے کہ حضرت زینبؓ کے روضے کی حفاظت کے لالے پڑ گئے۔ ارے ظالموں حشر کے میدان میں نبی رحمت کو کیا منہ دکھاﺅ گے نواسہ رسول کو کیا جواب دو گے جس نے باطل قوتوں کے سامنے جھکنے کی بجائے اپنا سب کچھ قربان کر دیاتھا۔ ابھی تک تو دجلہ و فرات کے گیسوﺅں کا رنگ تبدیل نہیں ہوا لیکن تم نے حضرت زینبؓ کے روضے، خالد بن ولید کے فتح کئے علاقوں کو خون میں نہلا دیا۔ اگر مجھے علماءکے فتوﺅں کا ڈر نہ ہوتا تو میں کالم کو نوحے اور مرثیے کی شکل دیکر شام غریباں کا اہتمام کرکے مردہ روحوں کو اشک شوئی پر مجبور کر دیتا۔ اسدی اور مخالفین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے صف آرا ہیں۔ بشارالاسد ہزاروں شامیوں کو بے آبرو کرکے گھروں سے نکال چکا ہے۔ شامیوں کے گھر ان کا مال اسباب اس کی سفاک سپاہ کا ہدف ہے۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ جہاں پر بشارالاسد کے محل اور ہمسایوں کی دیواروں کے سائے گلے ملتے ہیں وہیں پر بشارالاسد کا دائرہ فرماں روائی ختم ہو جاتا ہے لیکن روسی حمایت سے ایک بے ننگ و نام شخص کو معتبر بنانے کی کوشش عروج پر ہے اور اس کے ظلم و ستم سے انسانیت بھی شرم کے مارے منہ چھپائے پھر رہی ہے۔ ہر طرف لاشوں کا ڈھیر ہے۔ اس ظلم پر تاریخ بھی بال کھولے بین کر رہی ہے لیکن 34مسلم ممالک کا اتحاد خواب خرگوش میں ہے۔ اس اتحاد کا ماٹو تو بقول شاعر مشرق یہ ہونا چاہئے
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہوجائے
لیکن ہمارا اتحاد صرف اپنے وجود کو خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے ہے ۔2002ءمیںافغانستان میں سنہری بالوں ،گلابی گالوں اور شہابی آنکھوں والی 217بچیاں لے جا کر امریکہ کی منڈیوں میں نیلام کی گی تھی انھیں لونڈیاں بنا کر گھروں میں رکھا گیا لیکن میری امت کے جبہ ودستار کو اپنے اقتدار سے ہی فرصت نہ ملی ۔اب بھی شام میں ایسا ہو رہا ہے۔۔۔ حمص شام کا ایک قدیم اور تاریخی شہر۔ دمشق سے 300کلومیٹر شمال کی جانب دریائے عاصی کے مشرقی کنارے واقع ہے۔حضرت ادریس علیہ السلام اپنے مولد بابل سے ہجرت کرکے حمص کے راستے فلسطین کے شہر الخلیل پہنچے اور وہاں سے مصر کے شہر ممفس پہنچے حمص کو حمص بن مہر عملیکی نے آباد کیا تھااور اسی کے نام سے منسوب ہے۔ رومیوں کے بعد حمص بازنطینی حکومت کا بڑا مرکز رہا۔ یہ شہر خلافت فاروقی 14ھ 635ءمیں خالد بن ولید اور عبیدہ بن الجراح کے ہاتھوں سے فتح ہوا۔ یہاں خالد بن ولید ان کی زوجہ انکے بیٹے عبد الرحمن،عیاض بن غنم،عبید اللہ بن عمرو،سفینہ مولیٰ رسول اللہ ،ابو درداءاور ابوذر غفاری کی قبریں ہیں۔لیکن آج ان قبروں کی حفاظت کرنےوالا کوئی نہیں ۔شہری آبادیوں خوفناک بمباری سے جان بچاکر صوبہ ادلب میں واقع پناہ گزین کیمپ میں پناہ لینے والے معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کو بشارالاسد اور روسی درندوں نے اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔ان انسانیت سوز جنگی جرائم پر پوری دنیا کو اور بالخصوص پاکستانی میڈیا کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔
آج ہسپتالوں، کلینکوں، سکولوں، کالجوں، بازاروں اور مسجدوں میں اپنے باشندوں کو، اپنے ننھے ننھے بچوں کو، اپنی انتظار کرتی ماو¿ں کو، اپنے کسب ِحلال کمانے والے مرد وں کو خون میں نہایا ہوا دیکھ کے حلب آج خود رو رہا ہے آج حلب ، زنگی، ایوبی، سلجوقی اور یوسف بن تاشفین صدائیںدے رہا مگر صد ہائے افسوس! آج غیرت ایمانی ایسی سو رہی ہے کہ کروڑوں مسلمانوں کا خون دیکھ کر بھی جاگ نہیں رہی. آج مسلم امہ کو گاجر مولی کیطرح کاٹا جارہا ہے مگر ہم مصروف ہیں رنگ و سرور کی محفلوں میں مسلم امہ کا خون پیا جا رہا ہے اور یہاں غفلت کی شراب کے جام بھرے جارہے ہیں .