سیدھی سادی سلیس اردو میں ان انگریزی الفاظ کا مطلب ہے سرکار کی نوکری یا عوام کی نوکری۔ سرکار کا کام ہے حکومت کرنا۔ مانئے یا نہ مانئے انگریز کے زمانے میں اس کا یہی مطلب تھا۔ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سرکاری افسران سے واسطہ پڑا ہے تو سمجھ آ گیا ہو گا کہ ابھی تک بسا اوقات اس کا یہی مطلب لیا جاتا ہے۔ میں انگریزی دور کی پیداوار ہوں اس لئے انگریز افسروں کی رعونت اور سرکار کی برتری کا مطلب اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ لیکن ان کی رعونت صرف محکوموں یعنی غلام کردہ ہندوستانی قوم تک محدود تھی۔ انگریز سرکار کے گورے افسران ہندوستانیوں سے کتے جیسا سلوک کرتے۔ کہیں کہیں کلب کے باہر یہ لکھا بھی نظر آ جاتا ’’یہاں کتے اور ہندوستانی کا داخلہ ممنوع ہے‘‘ یہ اس لئے کہ انگریز حکمران تھے اور ہندوستانی غلام۔ 1947ء سے پہلے اس سلوک کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے:
صاحب بہادر کی شاندار میز اور کرسی کے سامنے ایک پارٹیشن ہوتی جو لکڑی یا خوبصورت پردوں کی بنی ہوتی تاکہ کوئی سائل (یعنی محکوم غلام) صاحب کی جھلک نہ دیکھ پائے۔ کمرے کے باہر غلام قوم کا ایک ہندوستانی چپراسی شاندار پگڑی اور وردی میں ملبوس مستعد کھڑا ہوتا جو کسی بھی سائل کو ’’صاحب‘‘ تک رسائی سے پہلے اسے اس کی اوقات سمجھاتا۔ اگر چپراسی مناسب سمجھتا تو باادب و باملاحظہ اندر جا کر ’’صاحب‘‘ کا موڈ دیکھ کر سائل کی آمد کی اطلاع دیتا۔ ’’صاحب‘‘ تجاہل عارفانہ یا تکبر حکمرانہ برتتے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے اسے نظرانداز کرتا۔ اتنی دیر چپراسی صاحب کے حضور دست بستہ کھڑا رہتا۔ پھر صاحب انداز خسروانہ میں پوچھتے ’’کیا بولٹا ہے‘‘ بعد از بصد آرزو و بدقت تمام یہ پیکر عجز و نیاز، غلامی کے جوئے میں دبا ہوا ایاز اگر شرف باریابی حاصل کر ہی لیتا تو صاحب بہادر اندر آتے ہوئے غلام کو کنکھی نظروں سے دیکھتا اور پھر رعب و دبدبہ قائم رکھنے کے لئے میز پر سے ایک کاغذ اٹھا کر اپنی نظریں اس پر گاڑ دیتا گویا کوئی انتہائی دقیق مسئلہ حل کرنے میں مصروف ہے اگرچہ اس دوران وہ اندازہ لگاتا کہ سائل کی شخصیت کو کرش کرنے یا اسے اپنی ہیبت و طمطراق سے متاثر یا گھائل کرنے میں کتنی دیر لگے گی۔ جب صاحب کی قوت متخیلہ یہ فیصلہ سنا دیتی کہ اب سائل بحث کرنے کے قابل نہیں رہا تو شاہانہ انداز میں نظریں اٹھا کر پوچھتا ’’کیا مانگٹا ہے‘‘ سائل کانپتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی زبان میں اپنا مدعا پیش کرتا۔ صاحب گھنٹی پر انگلی دباتا، سرکار کا ایک ملازم اندر داخل ہوتا اور صاحب بہادر حکم صادر فرما دیتے جس کا مطلب یہ نہ ہوتا کہ مسئلہ حل ہو جائے گا بلکہ یہ کہ کاغذی کارروائی شروع ہو جائے گی جس کا نتیجہ نچلے درجے کے کالے صاحبان کی صوابدید پر منحصر ہوتا۔ یوں سرخ فیتہ ایک میز سے دوسری میز تک چلتا رہتا۔
1947ء کے بعد جب یہ انگریز افسران واپس انگلستان پہنچے تو اکثر کو اپنے ملک میں سروس کے ناقابل پایا گیا۔ کیونکہ ان کو ہندوستانی عوام کو ذلیل کرنے اور ان پر جائز و ناجائز حکم اور رعونت آمیز روئیے کی عادت پڑ چکی تھی جو کہ برٹش عوام کے لئے قطعاً ناقابل قبول تھی۔ اپنے ملک یعنی انگلستان میں سرکاری افسران عوام کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں کیونکہ وہ گورنمنٹ سرونٹ نہیں بلکہ پبلک سرونٹ ہوتے ہیں اور ان کی ملازمت کو گورنمنٹ سروس نہیں بلکہ پبلک سروس یا سول سروس کہا جاتا ہے یعنی انتظامی محکموں سے تعلق رکھنے والے شائستہ و خوش اخلاق عوامی خدمتگاروں کا محکمہ۔ مجھے انگلستان میں ایسے افسران سے واسطہ پڑ چکا ہے جنہوں نے میرے لئے دروازہ کھولا، مجھے کرسی آفر کی اور اس وقت تک کھڑے رہے جب تک میں کرسی پر نہیں بیٹھ گیا۔ اس کے بعد انتہائی اخلاق و خندہ پیشانی سے مجھے سرکاری کارروائی سمجھائی۔ بدقسمتی سے پاکستان کے افسران و کلرک حضرات ابھی تک گورنمنٹ سروس کرتے ہیں لہٰذا اپنی ملازمت کے دوران وہ گورنمنٹ کی ہر جائز و ناجائز خدمت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ انہیں پبلک سروس یا عوام کی خدمت سے کیا سروکار!
اگرچہ یہ سچ ہے کہ خوئے غلامی میں پختہ تر غلامانِ انگریزی سرکار کی نسل تو اب کافی حد تک ناپید ہوچکی ہے تاہم ابھی تک کچھ اداروں میں وہ نہیں تو ان کے کردار کے کچھ لوگ باقی ہیں۔ سب سے پہلا واسطہ چپراسی یاچوکیدار سے ہی پڑتا ہے۔ اگرچہ ان کی نیلی پھیکی وردیوں یا بے وردی لباس سے قوم کا افلاس جھلکتا ہے پھر بھی یہ بے وردی غلامانِ سرکار اپنی زبان و کردار سے اپنی ٹوٹی ہوئی بوسیدہ کرسیوں کی شان دکھانے سے باز نہیں آتے۔ لیکن ان کی اور ان کے افسران کی شانِ کبریائی صرف ان اداروں تک مخصوص ہے جنہیں ہم جیسے حقیر کیڑوں یعنی عوام سے واسطہ پڑتا ہے۔ عوام کی جتنی زیادہ بھیڑ ہو اتنا ہی ان کی شان کبریائی، بے نیازی اور رعونت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس رعونت کا مظاہرہ میری آنکھوں کے سامنے ہوچکا ہے۔ عوام کا یہ اژدھام اگر موجود نہ ہو تو مصنوعی طریقے سے پیدا کرلیا جاتا ہے۔ مثلاً دفتر کے دروازے بند رکھ کر، کمپیوٹر فیل ہونے کا عذر پیش کرکے، بجلی فیل ہونے کا بہانہ بناکر، فارم کی عدم موجودگی، صاحب کی مصروفیت یا کسی اور کے سر الزام تھوپ کر۔ یہ علیحدہ مسئلہ ہے کہ صاحب اپنے کمرے میں کسی دوست کے ساتھ کافی کی چسکیاں لے رہے ہوتے ہیں اور عوام الناس باہر دھوپ میں، لامتناہی انتظار سے بے زار، پسینے میں شرابور، انگڑائیاں لیتے، لسانی یا جسمانی مشق ستم کرتے یا دھینگامشتی میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔ اگر یہ نظارہ دیکھنا ہو تو نادرا کے دفاتر کے باہر کھڑے ہو جایئے جہاں صبح سات بجے سے ہی لوگ اکٹھا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ نادرا کے دفاتر میں ذلیل و خوار ہونا عوام کی مجبوری ہے۔ اس لئے کہ شناختی کارڈ اور بچوں کے بے فارم وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔ اگر بچوں کا بے فارم نہ بنے تو وہ بورڈ کا امتحان نہیں دے سکتے۔
بہرحال جب بصد اندازِ خسروانہ چپراسی یا محکمے کا کوئی اہلکار دروازے کھولتا ہے تو مجبور و مقہور عوام کا جمگھٹا ایک دوسرے کو روندتا ہوا، پرجوش برساتی نالے کی طرح، ہر ایک کو خس و خاشاک کی طرح بہاتا ہوا اندر داخل ہوجاتا ہے، اس امید پر کہ شاید ان کا کام ہوجائے۔ لیکن اندر جاتے ہی انہیں احساس ہوجاتا ہے کہ اس محکمے کے افسران و اہلکار سب کے سب اپنی بیوی سے لڑ کر آئے ہیں یا اپنے کام کو بیگار سمجھ کر مجبوراً کررہے ہیں۔ مجال ہے کہ مسکراہٹ نے ان کے چہرے کے قریب بھی پھٹکنے کی جرأت کی ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر کوئی درخواست گزار اپنی لاعلمی یا بقول ان کے اپنی جہالت و بے و قوفی سے کوئی سوال پوچھنے کی جرأت کر بیٹھے تو چہرہ نوچ کر خونوں خون کردیں گے۔ اگر ایسا نہ بھی کریں تو کم از کم ان کا اپنا چہرہ قہرناک و خونیں ضرور ہوجاتا ہے۔ مگر شاید وہ بیچارے بھی مجبور ہیں۔ اگر اتنے ’’جاہل و بیوقوف‘‘ عوام کا جم غفیر ان پر ٹوٹ پڑے تو ان کے اوسان بھی خطا ہوجاتے ہیں۔ ایک آدھ نے اگر قرآن کی اس آیت کا ترجمہ پڑھ بھی لیا ہو جس میں ارشاد ربانی ہے: ’’لوگوں سے حسن اخلاق سے بات کیا کرو‘‘ تو بھلا اس افراتفری، شدید مصروفیت اور نشہ حکمرانی کے دوران یہ آیت کس کو یاد رہ سکتی ہے۔ کچھ ایسے ہی نظارے گیس، پاسپورٹ اور کئی دیگر اداروں کے باہر نظرآتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ راشی افسران اور ان کے ایجنٹوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ مجھے بھی ایک ادارہ چلانے کا موقع ملا جہاں میری آنکھوں کے سامنے ہلڑ مچا ہوتا تھا۔ صرف سمجھنے اور منظم کرنے کی ضرورت تھی۔ اب وہاں پہلے سے بھی زیادہ لوگ آتے ہیں مگر مجال ہے کہ ہلڑ مچے۔ وہی کارکن، وہی عوام مگر بدنظمی ختم۔ ثابت ہوا کہ قصور حکمران طبقے اور افسران اعلیٰ کا ہے۔ اگر وہ ارادہ خیرکا رکھیں، وقت کی پابندی کریں اور خود محنت و دیانتداری سے کام کریں تو نچلے افسران اور ان کے ماتحت اہلکار خودبخود سدھر جاتے ہیں۔
اس ناچیز کی رائے میں اس بدنظمی کا حل یقینا موجود ہے اور وہ یہ ہے:
-1 گورنمنٹ سروس کی اصطلاح کو تبدیل کرکے ’’پبلک سروس‘‘ کی اصطلاح کو رائج کیا جائے تاکہ افسران خود کو عوام کے حاکم نہیں بلکہ خادم و مددگار سمجھ کر ان کی خدمت و بھلائی کو اپنا فرض جانیں۔
-2 نادرا، گیس، پاسپورٹ اور دیگر عوامی اداروں کو زیادہ تعداد میں مختلف علاقوں میں کھولا جائے تاکہ عوام لمبی قطاروں سے نجات پاسکیں اور اہلکار ذہنی دبائو سے نکل کر اطمینان سے کام کرسکیں۔
-3 خفیہ طور پر ان اداروں کی کارکردگی کی نگرانی کی جائے یا کم از کم ویڈیو کیمرے نصب ہوں تاکہ عوام کے ساتھ حسن سلوک یا بدسلوکی ریکارڈ پر آسکے۔ ان کیمروں کی فلم کا معائنہ محاسبہ کرنے والا کوئی دوسرا ادارہ بغیر نوٹس کے کرتا رہے۔ اگر یہ کیمرے چالو نہ ہوں تو افسران کو ذمہ دار ٹھہرا کر ان کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے۔
-4 اداروں کے سربراہوں اور ان کے ماتحتوں کو خوش اخلاقی اور وقت کی پابندی کی تربیت دی جائے۔
-5 محتسب (Ombudsman) تک عوام کی رسائی آسان بنائی جائے اور ان کی جائز شکایات کا ازالہ فوری طور پر کیا جائے۔
-6 محاسب ایسے افراد کو چن کر رکھا جائے جن کی دیانت داری اور حب الوطنی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہو۔ اگرچہ ایسے افراد کا ملنا مشکل ہے مگر یقینا ابھی تک معاشرے میں ایسے بے لوث افراد موجود ہیں۔ اگر سرکار کی جانب سے انہیں ہر قسم کا تحفظ مہیا کیا جائے تو وہ اپنا فرض آسانی سے نبھا سکیں گے۔
گورنمنٹ سروس یا پبلک سروس
May 13, 2016