ظلم کی داستان

May 13, 2016

ہادی اقبال حسین

پاکستان کی بہت ساری محرومیوں میں سرفہرست حکمرانوں کی عوامی فلاح اور بھلائی کے کاموں میں مکمل بے اعتنائی ہے۔ 60 سال ہو گئے اور چند سالوں اور تھوڑے عرصے کے علاوہ سب حکمران ’’گھائو گھپ‘‘ کے کام میں لگے رہے چاہے وہ سیاستدان ہوں یا فوجی مذہب سے لے کر ملکی سالمیت سمیت سب کو اپنے مال اور اقتدار کی خاطر بیچ ڈالا اور حکمرانی ایک موروثی شکل اختیار کر گئی عوام کی حالت زار کی بہتری کے لئے فعال عوامل کی طرف بہت کم توجہ رہی۔ وی آئی پی کلچر نے حکمرانوں اور محکوموں کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا کردی اور عوام بیچارے سڑکوں پر کھڑے وی آئی پی کے گزرنے کے منتظر ہی رہ سکے۔
یوں تو ہر شعبہ زندگی ظلم ستم اور عدم توجہی کا شکار ہے مگر زمینداری جو کہ ملک کی معاشی حالت کی ماں ہے۔ نہایت ناگفتہ بہہ حالت کا شکار ہے۔ اس کی ساری Inputs نہایت مہنگی اور عدم دستیابی کا شکار ہیں۔ بڑے زمیندار تو شاید اپنی سیاسی قوت اور صحت مند مالی حالت کی وجہ سے یہ ظلم برداشت کر جائیں گے چھوٹا زمیندار تو مرنے کے قریب ہے۔ ہمارے ملک نے زراعت میں بہت ترقی کی ہے بھارت میں کھاد کی قیمت سستی ترین ہے۔ مرکزی حکومت اس کی پیداواری ضروریات میں مالی مدد کر کے کھاد کو سستا رکھے ہوئے ہے علاوہ ازیں دوسری چیزوں کے کرایوں میں اضافے سے کھاد کی باربرداری کو تحفظ ہے اور یہ سستی ہے۔ اس کی دستیابی کیلئے ریلوے کے ان سیکشنوں پر جہاں گندم چاول کی پیداوار ہوتی ہے۔ IFC-Godown (انڈین فوڈ کارپوریشن) 50-60 میل کے فاصلے پر تعمیر کئے گئے ہیں جس میں کسان کی سہولت کے لئے کھاد دستیاب ہوتی ہے تاکہ کسان کی ضرورت کے وقت وہاں دستیاب ہو۔ اسی طرح گندم یا چاول کی پیداوار انہیںFC-Godown I میں زمیندار سے خرید کر سٹور کر لی جاتی ہے اور ریل کے ذریعہ ملک کے مختلف حصوں میں بھیج دی جاتی ہے۔ مشرقی پنجاب (ہندوستان) میں بجلی کی سپلائی شہروں کو محدود کر کے کھیتوں میں ٹیوب ویل چلانے کے لئے نہایت ارزاں قیمت پر مہیا کی جاتی ہے تاکہ ملک کے غذا کے میدان میں خود کفیل اور دوسرے ملکوں کو فاضل پیداوار بیچ سکے۔ دیگر زرعی پیداوار گنا ، اور سبزیاں بھی مکمل توجہ اور مدد پاتی ہیں۔
پاکستان (پنجاب) میں آج کل زرعی پیداوار کی کھپت میں دشواریوں نے زمینداروں کا بُرا حال کر دیا ہے۔ آلو آڑھتی کے حرص اور لالچ کا شکار ہے۔ چونکہ قیمت کم ہے اس کی پیداوار کا خرچہ پورا نہیں ہو رہا۔ Middle Man منڈیوں میں اپنی غنڈہ گردی اور اجارہ داری میں بغیر کسی پیداواری محنت کے بازاری قیمت میں اپنا پورا حصہ وصول کرتا ہے۔ حکومت کو کوئی پرواہ نہیں کولڈ سٹورز میں آلو رکھا نہیں جا سکتا کیونکہ بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے قریباً 500 بوری سٹوریج چارج ہے۔
ان تمام مشکلات کا حل توجہ طلب ہے۔ ملک کے تمام سرکاری ادارے اور بنک یا صنعتی یونٹ فوری طور پر اپنے ملازمین کو یہ سہولت فراہم کریں کہ وہ 5 یا 10 کلو آلو،چینی، چاول گھی وغیر قسطوں میں ادائیگی پر قیمتاً یوٹلیٹی سٹور سے نقد ادائیگی پر اپنے ملازمین کو حاصل کرنے کی سہولت دیں جس کی قیمت ملازم تین یا چار ماہانہ اقساط محکمہ کو واپس ادا کرے۔ یوٹیلٹی سٹور آلو 5 یا 10 کلو بیگ میں منڈیوں یا کسانوں سے خود حاصل کریں پاکستان خود ان کو معیاری پیداوار اتنے داموں پر لیں کہ کسان کا خرچہ بمعہ مناسب منافع اسے مل جائے۔ پاکستان ریلوے صرف 25 فیصد کرایہ پر یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کے نام پر بار برداری کا کام سرانجام دے۔ یہ سہولت رمضان المبارک میں اور اس کے بعد بھی نہایت خوش آئند ہو گی۔ زراعت کے حالات معاشی طور پر بہتر کرنے پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ جس میں ان پٹ کھاد، پانی بجلی، کی مناسب دام پر فراہمی اور پھر پیداوار کی فوراً کھپت کی شدید ضرورت ہے۔
یوں آلو اور دیگر اجناس کو سٹور کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی آسان اقساط پر سرکاری و دیگر ماہانہ تنخواہ والے ملازمین کو ضروری اشیاء خوردنی گھر پہنچ جائیں گی اور خوردہ قیمت بڑھنے سے رک جائے گی۔ یہ حکومت کے فلاحی کاموں میں شمار ہو گا۔

مزیدخبریں