لاہور ( دی نیشن رپورٹ) ملک کی اعلیٰ سیاسی قیادت نے نا اہل وزیر اعظم نواز شریف کے ممئی حملوں کے بارے میں بیان کو ملک کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اپنی مایوسی اور اضطرابی کیفیت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں افغانستان کے مو¿قف کو تسلیم کیا گیا ہے جبکہ بین الاقوامی طور پر پاکستان کا مو¿قف تسلیم نہیں کیا ہے پاکستان اس وقت انتہائی کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جانی اور مالی قربانیوں کے باوجود دنیا پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نا اہل وزیر اعظم نواز شریف نے انٹرویو کے دوران کہا کہ ہمیں جہادی تنظیموں کے خلاف بھر پور ایکشن لینا چاہئے۔ ممبئی حملوں میں ملوث افراد کا جلد ٹرائل مکمل کیا جانا چاہئے۔ نیشن کے نمائندہ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں سے نواز شریف کے بیان پر موقف لینے کیلئے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کوئی بھی مرکزی رہنما نواز شریف کے بیان پر موقف دینے کو تیار نہیں تھا، کئی رہنماﺅں نے مختلف وجوہات کے تحت جواب دینے سے انکار کر دیا۔ تحریک انصاف کے وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی نے بیان پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے بیان سے پوری قوم کو تکلیف پہنچی ہے۔ 3دفعہ وزیراعظم رہنے والے قومی رہنماکو اس قسم کا بیان نہیں دینا چاہئے تھا، اس بیان سے بھارت کے مو¿قف کو تقویت ملی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما منظور وٹو نے نواز شریف کے بھارت نواز بیان کو ملک کے قومی مفاد پر حملہ قرار دیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ قومی لیڈر سے اس طرح کے غیر ذمہ دار بیان کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ لیاقت بلوچ نے بیان کو ملکی سلامتی کیخلاف قرار دیتے ہوئے ایک خطر ناک اور ملک دشمن عمل سے مماثلت قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی اور بربریت پر کیوں خاموش ہیں ، دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب نے نیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا بیان انتہائی نامناسب ہے اس معاملہ پر فوری طورپر قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانا چاہئے۔
نوازشریف/ ردعمل
اسلام آباد (این این آئی) پاکستان مسلم لیگ (ن)کے قائد، سابق وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ اگر ملک میں دو یا تین متوازی حکومتیں ہوں تو آپ ملک نہیں چلا سکتے ¾ صرف ایک آئینی حکومت کا ہونا ضروری ہے ¾ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین پارٹی چھوڑ کر نہیں گئے ¾ انہیں لے جایا گیا ہے ¾ دوبارہ حکومت ملی تو اپنی پالیسیاں جاری رکھیں گے ۔ایک انٹرویو میں نواز شریف نے اپنے اور اہل خانہ کے خلاف جاری احتساب کے عمل کے بارے میں رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر ملک میں 2 یا 3 متوازی حکومتیں ہوں تو آپ وہ ملک نہیں چلا سکتے۔ ا س کےلئے صرف ایک آئینی حکومت کا ہونا ہی ضروری ہے۔نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ جانے والے ارکان بالخصوص جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سابق اراکین کے بارے میں کہا کہ وہ پارٹی چھوڑ کر نہیں گئے، ا±نہیں لے جایا گیا ہے اور ساتھ ہی سوال کیا کہ انہیں کون لے کر گیا؟جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ گر وہ واقعی ’محاذ‘ تھا تو وہ 2 دن بھی اس پر کیوں نہ ڈٹ سکے اور فوری طور پر تحریک انصاف میں شامل ہونے کےلئے انہیں کس نے مجبور کیا؟۔ انہوں نے کہالوگوں میں مجھے کیوں نکالا؟ کا نعرہ بہت مقبول ہے اور لوگ اس حوالے سے خاص جذبات رکھتے ہیں۔جب نواز شریف سے پوچھا گیا کہ آئندہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کون کرےگا اور کیا شہباز شریف ممکنہ طور پر وزارت عظمیٰ کے اگلے امیدوار ہوں گے تو انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی خدمات کے سب ہی معترف ہیں ¾ آپ شہر پر نظر دوڑائیں انہوں نے اس کا حلیہ بدل کے رکھ دیا ہے۔ایک سوال پر انہوں نے 2014 میں عمران خان کے دھرنے کے تناظر میں کہا کہ جب پہلے سال سے ہی غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جائیں گی تو اصلاحات کیسے ممکن ہوں گی؟۔جب نواز شریف سے پوچھا گیا کہ ان کی حکومت کے خاتمے کی وجہ کیا تھی تو انہوں نے براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے معاملات کا تذکرہ کرتے کہا کہ ہم نے اپنے آپ کو تنہا کر لیا ہے۔ہماری قربانیوں کے باوجود ہمارا موقف تسلیم نہیں کیا جارہا۔افغانستان کا موقف سنا جاتا ہے لیکن ہمارا نہیں ¾اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے ممبئی حملوں کے راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلنے والے مقدمے کے حوالے سے کہا کہ اس مقدمے کی کارروائی ابھی تک مکمل کیوں نہیں ہوسکی؟ عسکری تنظیمیں اب تک متحرک ہیں جنہیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہے ¾ مجھے سمجھائیں کہ کیا ہمیں انہیں اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ سرحد پار جا کر 150 لوگوں کو قتل کردیں۔یہ عمل ناقابل قبول ہے یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ بات روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور چینی صدر نے بھی کہی۔ ان کا کہنا تھا ہماری مجموعی ملکی پیداوار کی شرح نمو 7 فیصد ہوسکتی تھی لیکن نہیں ہے۔انہوں نے اس رائے سے اختلاف کیا کہ تیسری مرتبہ وزیراعظم کے عہدے سے برطرفی ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پھر حکومت ملی تو وہ اس سے مختلف کچھ نہیں کریں گے۔سابق وزیراعظم نے کہاکہ آئین سب سے مقدم ہے اور اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں۔ ہم نے ایک آمر کے خلاف مقدمہ چلایا جو اس سے قبل کبھی نہیں ہوا۔جب ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا وہ ماضی کی طرح حراست سے بچنے کےلئے جلاوطنی اختیار کرنے کےلئے ڈیل کی کسی پیشکش پر دوبارہ غور کریں گے؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ میں 66 پیشیاں بھگتنے کے بعد ایسا کیوں کروں گا ؟ مجھے اتنی بھی مہلت نہیں دی گئی کہ لندن میں زیر علاج اپنی اہلیہ سے ملاقات کرنے جا سکوں، دور رہنا آسان نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں، یہ کھیل بہت عرصے سے جاری ہے اب کچھ تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔
نواز شریف