جمہور کی’’امنگوں‘‘ کے مطابق انکی فلاح اورنظام حکومت چلانا جمہوریت کی روح ہے۔جمہوریت پرتو اکثریتی حلقے’’ متفق‘‘ ہیں لیکن ’’ امنگوں‘‘کی تعریف کو ہرکوئی الگ نظر سے دیکھتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے دل کی خواہشات کا پورا ہوناعوامی امنگ سمجھتے ہیں توکچھ عوام کی امنگوں کو اپنے خوابوں کے مطابق ڈھالنے میں سرگرداں نظرآتے ہیںمیں ایک ’’ووٹر ‘‘ ہوں۔مملکت خداداد پاکستان کے ایک شہری اورآئین پاکستان کے تحت ودیعت کردہ نظام حکومت کی ’’بنیادی اکائی ‘‘ کی حیثیت سے میں کیا سوچتا ہوں ؟ کیا چاہتا ہوں؟ میں چاہتا ہوں کہ جب انتخابات کے گھٹا ٹوپ بادل چھائیں توہن برسے ایسا کہ الاماں الحفیظ۔انتخابات کا سال آتا ہے تو دل چاہتا ہے کہ کوئی بڑی سی گاڑی میرے محلے کی تنگ سی گلی میں آکر میرے گھر کے سامنے رکے اوراس میں سفید کلف لگا لٹھے کا سوٹ پہنے خود کو ارد گرد کی گندگی سے بچاتا سفید پوش امیدوارکروڑوں روپے کی گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے وہیں سے سلام کرے اورمیں اسے اکیس توپوں کی سلامی جان کرنہ صرف صدقے واری جاؤں بلکہ اپنے اوراپنے خاندان کے ووٹ اس کی اجلی سی جھولی میں ڈال دوں۔دل چاہتا ہے کہ گزشتہ سال میرے خلاف جھوٹے مقدمے سے گلوخلاصی کیلئے اپنے ڈیرے پر بیسیوں چکرلگوانے والا امیدوارآئے تو میں اتنا ہی مصروف بن جاؤں جتنا وہ ہوتا تھا لیکن جب وہ آن پہنچتا ہے تو یقین جانیں دل وجان سے اسکی عزت کرنے لگتا ہوں کیونکہ بالآخر اسی نے یہ مقدمہ ختم کرایا تھا (یہ مگرمجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ مقدمہ کرایا بھی اسی نے تھا) اور تو اورجناب خود چل کر بھی تو آگئے ہیں اب گھر آئے کو انکاراور غیر مہذبانہ برتاؤکی راہ میں ہماری تہذیب مانع ہے گاؤں کے اس وڈیرے کے بارے میں تو دل سے بددعائیں نکلتی ہیں جس نے گزشتہ الیکشن میں ووٹ نہ دینے پرمجھے ذاتی ملازموں سے اغوا کرکے محبوس رکھا اوربے تحاشا تشدد کا نشانہ بنایا تھا لیکن اگلے الیکشن میں ووٹ اس کو دینا ہی پڑے گا کیونکہ بہت مارتے ہیں وڈیرا سائیں۔دل تو بہت کرتاہے کہ میں نہ سہی میرے بچے تو پڑھیں لکھیں ،بابو بنیں انسانوں کے جیسی زندگی جئیں۔میں توسارا دن گدھے جتنا کام کرکے بھی اپنا پیٹ بھرپاتا ہوں نہ اپنے بچوں کا۔استحصال کی درجنوں اقسام کا شکارہوکربھی اپنا حق مانگنے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن اپنے بچوں کواس سب سے بچانا ضرورچاہتا ہوں مگر کیا کروں جس سے منصفی مانگتا ہوں جس سے حق مانگتا ہوں وہی تو ہتھیارا ہے وہی تو استحصالی سامراج ہے وہی اجیر ہے وہ کیونکر دے گا میرے بچے کو یہ حق۔۔یہ سب مجھے بھی پتہ ہے لیکن کیا کروںووٹ اسی کو دینا ہے دل بہلانے کو یہ بات کافی نہیں کہ جو دووقت کی روٹی میسرہے اسی کی بدولت ہے۔میں جب اپنے پیر صاحب کو دیکھتا ہوں کتنے اجلے لباس،چمکتی گاڑیاں،جاہ وجلال،مذہبی تقاریر،خوشبوؤں میں بسے ہجریتو دل چاہتا ہے کہ میں بھی کچھ ایسا بن سکتا۔میں بھی کسی پیر گھرانے کا چشم وچراغ ہوتا چلو میں نہ سہی میرے بچوں کے نصیب ایسے ہوجائیں کہ وہ ان پیران پیر کی خدمت میں ہی سہی ایسے صاف ستھرے ماحول میں جئیں لیکن پھرسوچتا ہوں کہ ان کی برابری کیونکرہوسکتی ہے بس یہی سوچ کرمیں ان کا جاہ وجلال برقرارکھنے کی غیرفطری روایات کو کندھا دیکر مستحکم کیے چلا جاتا ہوں ووٹ بھی انہی کو دیتا ہوں نہ دیا تو دھرم بھرشٹ نہ ہوجائے پیر کی برابری کے چکر میں خدا کی ناراضگی نہ مول لے لوں۔دل بہلانے کو یہ خیال بھی اچھا لگتا ہے دل تو بہت چاہتا ہے کہ کسی دباؤ،کسی لالچ،کسی برادری سے آزاد ہوکراسے ووٹ ڈالوں جو ملک کی ترقی اورحقیقی معنوں میں عوام کی فلاح کا سوچے لیکن پھر سوچتا ہوں انتخابی اعلانات ،منشوراورباتیں توسب ایسی ہی کرتے ہیں عمل تو حقیقتاً کوئی بھی نہیں کرتا۔سرشام گھر کے باہرجمع ہونیوالے برادری کے کچھ معززین بہت زوردیتے ہیں کہ سب اسے ووٹ دیں جو اپنی برادری سے ہے۔جانتے بوجھتے بھی کہ وہ نہ تو کسی کام کا ہے نہ وژن رکھتا ہے نہ کبھی ہمارا حال پوچھا ہے اورنہ ہی ضرورت پڑنے پرہمارے کام آسکتا ہے پھر بھی برادری کے اصرار سے مجبور ہوجاتا ہوں اورپرچی پراس کے نا م کے آگے مہر لگا آتا ہوں اس کے بعد پانچ سال تک خود کو کوستا ہوں اوربرادری کے ان بڑے بوڑھوں کو بھی۔گاؤں میں گیس ہے نہ صحت کی بنیادی سہولتیں۔قدرتی گیس کی تودن میں تین بار ضرورت پڑتی ہے لیکن چونکہ یہ ضرورت خاتون خانہ کوہوتی ہے اس لیے مجھے ذرانہیں دکھتی۔ہرگھر کی خاتون کا یہی رونا ہے کہ امیدوارسے گیس فراہمی کا وعدہ لو۔امیدواربھی بڑے استاد ہیں ہرجماعت کا امیدواراسی وعدے کیساتھ آتا ہے صحت کی فراہمی کا اعلان بھی یوں کیا جاتا ہے کہ جیسے ابھی گاڑی سے اتارکرڈاکٹربٹھا دینگے گاؤں میں لیکن الیکشن کا موسم گزرتے ہی اس گاؤں کے تمام مردحضرات اپنے کندھوں پربچے اٹھائے دوسرے علاقے کے مرکز صحت کا رخ کرتے دکھائی دیتے ہیں اورخواتین گھریلوکام چھوڑ چھاڑ کر خشک لکڑیاں ڈھونے میں مصروف نظرآتی ہیں۔ہربار سوچتے ہیں کہ اس بار امیدوارکا کوئی وعدہ نہیں سننا بلکہ پچھلے وعدے ایفاء نہ ہونے کا بھی حساب لینا ہے۔ (جاری ہے)