شیخہ فاطمہ انسٹیٹیوٹ آف نرسنگ کو اپنی اصلی حالت میں بحال کیا جائے

May 13, 2018

فرزانہ چودھری
جذبہ انسانیت سے سرشار مریضوںکی مسیحائی کرنے والی نرسوں کا عالمی دن ہر سال 12مئی کو جنگ عظیم میں خدمات سرانجام دینے والی معروف نرس فلورنس نائٹ انگیل کی خدمات اور نرسوں کوخراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے یوم پیدائش پر منایا جاتا ہے۔نرسنگ وہ شعبہ ہے جو کسی بھی مریض کے زخموں پر مرہم رکھنے اور اس کی صحت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دن ہو یا رات، خوشی ہو یا غمی، بارش ہو، آندھی ہو یا دھوپ، ان کے شب و روز دْکھی انسانیت کی خدمت میں ہی گزرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کی عید شب برات بھی ہسپتالوں میں ہی گزرتی ہے۔ درحقیقت نرس ایک جذبے کا نام اور خدمت خلق کی عظیم ترین مثال ہے۔ نرسنگ جیسے مقدس پیشے کی بنیاد ایک اطالوی خاتون فلورنس نائٹ انگیل نے 1860ء میں رکھی جبکہ پاکستان میں اس کی بنیاد سابق وزیر اعظم پاکستان کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی تھی جو خود بھی سندھ کی گورنر رہیں۔ ملک بھر میں نرسنگ کی بنیادی تربیت کے لیے 162 ادارے قائم ہیں جبکہ ڈپلومہ اور ڈگری پروگرام فراہم کرنے والے اداروں کی تعداد صرف پانچ ہے۔ گزشتہ کئی سالوںسے پاکستان کے مختلف صوبوں کی نرسیں اپنے جائز حقوق اور مطالبات کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔سرکاری ہسپتالوں میں نرسوں کی تعداد ضرورت سے کئی گنا کم ہے۔ حالیہ سروے کے مطابق ملک کے ہسپتالوں میں آ ٹھ بستروں پر مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے صرف ایک نرس موجود ہے چیئر پرسن الائیڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اورانچارج ڈائیلسز یونٹ نرسنگ وائس سپرنٹنڈنٹ شیخ زید ہسپتال رفعت بلال نے کہا’’مجھے خوشی ہے کہ دنیا بھر میں کوئی ایک دن تو ہمارے لئے مختص ہے، ورنہ تھکا دینے والی ڈیوٹی جس میںمریضوں کے علاج میں ہمیں دن رات کی خبر ہی نہیں رہتی۔ میں دنیا بھر کی نرسوں کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہوں جو اپنے کام کے ساتھ ساتھ ایک ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا کردار بھی احسن طریقے سے نبھا رہی ہیں‘‘۔نرسنگ وائس سپرنٹنڈنٹ رفعت بلال نے بتایا ’’میں نرسنگ کے شعبہ سے حادثاتی طور پر وابستہ ہوئی۔ میری والدہ کی معاشرتی حالات کے پیش نظر سوچ یہ تھی کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کر کے اپنے بوجھ خود سنبھالنے کے قابل بننا چاہیے۔ میں نے ایف اے کے بعد نرسنگ کو جوائن کیا تو مجھے پتہ چلا کہ نرس کی ملازمت آسان نہیں ہے۔ یہ بہت مشکل ڈیوٹی ہے۔ نرسنگ میں میٹرک اور ایف اے کے بعدسولہ سے اٹھارہ سال تک کی بچیاں آتی ہیں۔ وہ بچیاں نرسنگ کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ 20‘ 25 مریضوں کی وارڈ میں اکیلے دیکھ بھال کر رہی ہوتی ہیں۔ نائٹ ڈیوٹی 12 گھنٹہ کی کرتی ہیں اور ہر نرس کی ایک ماہ بعد نائٹ ڈیوٹی کی باری آ جاتی ہے۔ بچیوں کو اکیلے گھر سے ہسپتال اور ہسپتال سے گھر جانا ہوتا ہے جس کے لیے وہ بہت سی مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ ان کو سرکاری ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہیں ہے۔ معاشرہ ان کو تنقیدی نظروں سے دیکھتا ہے اور گورنمنٹ آفیشل بھی نرسوں کووہ عزت احترام نہیں دیتے جس کی وہ حق دار ہیں ۔ دنیا میں نرسوں کوعزت واحترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ یوں تو ہم مغرب کی بہت نقل کرتے ہیں۔ پہناوے سے لے کر گفتگو‘ کھانے پینے کے طریقے یعنی اپنے روزمرہ معاملات میںمغربی انداز کو بڑے فخر سے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جدید دور میں ہر چیز کے طور طریقے بدل گئے مگر نہیں بدلا تو ایک طریقہ نہیں بدلا کہ نرسوں کو عزت اور ان کی پروفیشنل خدمات کی قدر کا ،ان کی حوصلہ افزائی اور ان کو قابل قدرنگاہ سے دیکھنے کا۔ مغرب میں صحت کے شعبہ میں نرس کے اہم رول کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کو فرسٹ کلاس سٹیزن مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں نرسوں کو ملازمت میں گریڈ تو مل جاتے ہیں مگر گریڈ کے مطابق ان کو عزت نہیں ملتی، جتنی اس گریڈ کے عام سرکاری ملازم کو دی جاتی ہے۔ بوڑھے مریضوں کو ان کی اپنی سگی اولاد سنبھالنے سے کتراتی اور گھبراتی ہے جبکہ نرس ان کی صحت کی بحالی اور علاج کے لئے دن رات اپنے فرائض نبھا رہی ہوتی ہے‘‘۔رفعت بلال نے بتایا’’ یہاں نرسنگ سکولوں کی صورت حال بھی انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔بیشتر نرسنگ سکولوں میں صرف بنیادی ٹریننگ ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ نرسنگ کی تربیت کے لیے سو سے زائد اداروں میں پڑھایا جانے والا کورس جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ملک میں کام کرنے والی بیشتر نرسیں ڈیوٹی پر بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔ ان کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران شدید ذہنی دباو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نرسیں دن رات مریضوں کی خدمت کرتی ہیں لیکن ان میں سے بیشتر کی ملازمت مستقل نہیں ہے۔ آخردکھی انسانیت کی مسیحائی کرنے والی نرسوں کا مسیحا کون بنے گا؟ اپنا کام محنت اور لگن کے ساتھ کرنے کے باوجود ہمارا سروس سٹرکچر بحال نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی تنخواہوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پنجاب کی نرسیں گزشتہ پانچ برس سے احتجاج کرنے کے باوجود بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ نرسنگ سکول کو مکمل سہولیات دیتے ہوئے نرسنگ کالج میں بدل دیا جائے ۔ نرسوں کے سروس سٹرکچر اور دیگر مسائل کے حوالے سے حکومت کا مؤقف ہمیشہ مبہم رہا ہے‘‘۔ رفعت بلال نے کہا ’’ہسپتالوں میں نرسوں کی تعداد ضرورت سے کئی گنا کم ہے۔ پاکستان بھر میں ایسے ہسپتال بھی موجود ہیں جہاں ایک وقت میں سٹاف نرس یا انچارج نرس کو بیک وقت پچاس سے زائد مریضوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے مطابق تین مریضوں پر ایک نرس ہونی چاہئے۔ نرسوں کے لیے ڈاکٹروں کی طرح ڈیوٹی کی تین شفٹیں رکھی جاتی ہیں جن کا دورانیہ کم و بیش دس سے سولہ گھنٹے تک کا ہوتا ہے اور حادثاتی صورت حال کے پیش نظر نرسوں کو اکثر و بیشتر اووَر ٹائم بھی لگانا پڑتا ہے مگر ان کو اس کی اضافی اجرت نہیں دی جاتی۔ سرکاری ہسپتالوں میں نرسنگ سٹاف کو کام تو زیادہ کرنا پڑتا ہے لیکن انہیں دی جانے والی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جن ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے لئے تو وارڈ میں دو گھنٹے گزارنا شرط ہو وہاں نرسز صبح اور شام کی شفٹ میں چھ گھنٹے اور رات کی شفٹ میں بارہ گھنٹے تک کام کرتی ہیں۔ سردی گرمی‘ بارش آندھی اور رات دن کی پروا کئے بغیر مریضوں کی خدمت گزاری کے فرائض سرانجام دینے والی نرسوں کو شعبہ صحت میں ریڑھ کی ہڈی تو قرار دیا جاتا ہے مگر وہ انتہائی مشکل حالات میں کم تنخواہ‘ کم سہولتوں کے باوجود اپنے پیشہ وار فرائض بھرپور نبھاتی ہیں۔ حکومت کو نرسوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے چاہئیں ۔ گورنمنٹ نرسوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرے ۔ڈاکٹروں اور سرکاری اداروں کے ملازمین کے لئے سوسائٹی بنائی گئی ہیں۔ نرسوں کے لیے بھی سرکاری سوسائٹی بنانی چاہیے۔ میں شیخ زید ہسپتال سے 1987ء سے منسلک ہوں۔ نرسوں کے لئے کوئی کالونی نہیں بنائی گئی۔نرسوںکی سیکورٹی اور تحفظ کے لئے کوئی قانون نہیں ہے۔ ہمیں کوئی کچھ بھی کہہ جائے، ہماری FIR نہیں درج کی جاتی ۔ شیخ زید ہسپتال کا ماحول بہت اچھا ہے مگر پھر بھی ہم کہیں نہ کہیں پس رہے ہیں۔میں شیخ زید ہسپتال کی نرسوں کو پہلے دن سے یہ سبق دے رہی ہوں کہ آپ نے مریض اور اس کے لواحقین کو عزت دینی ہے کیونکہ وہ جس دکھ تکلیف میں ہیں اس کا اندازہ عام بندہ نہیں لگا سکتا۔ میرے یونٹ میں ایک فیملی والا ماحول ہے۔ ورلڈ نرسز ڈے پر تمام نرسز سے یہی کہوں گی مریضوں کی خدمت کے اپنے جذبے کو ماند نہ پڑنے دیں آپ کو اپنے کام کا ایوارڈ انسان سے نہیں اللہ سے لینا ہے۔ میں گورنمنٹ اور ارباب اختیار سے بھی بات کہنا چاہتی ہوں کہ نرسوں کو ملازمت کو اپ گریڈ کیا جائے ۔ مجھے شیخ زید میں 32 سال ہو چکے ہیں اور میں اس وقت 18ویں گریڈ میں ہوں۔ نرسیں اپنی پڑھائی جاری رکھیں۔ نرسنگ کی پڑھائی پی ایچ ڈی تک چلی گئی ہے۔ UHS اور میڈیکل کالج شیخہ فاطمہ انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ کی زمین پر ہے۔ شیخہ فاطمہ انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ کو اس کی اپنی عمارت میں تھرڈ فلور تک محدود کیا ہوا ہے ۔ نرسنگ انسٹیٹیوٹ کی دو لیب بھی بند ہیں جس سے نرسوں کی تربیت متاثر ہو رہی ہے۔ دوسری مرتبہ نرسنگ انسٹی ٹیوٹ کی بلڈنگ کو ہائی جیک کیا گیا۔ UHS نے کالا شاہ کاکو میں زمین خریدی لی ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ گورنمنٹ شیخہ فاطمہ انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ کی عمارت یوایچ ایس اورمیڈیکل کالج سے واپس لے کراپنی اصل حالت میں بحال کروائے ۔ نرسوں کے لئے بیرون ممالک سے آنے والے سکالرشپ اُن تک نہیں پہنچتے ۔ چیف جسٹس پاکستان سوموٹو الیکشن لیں ۔ گورنمنٹ سے اپیل ہے کہ انٹرنیشنل معیار کے نرسنگ یونیورسٹی اور کالجز بنائے جائیں ۔ ہسپتال میں نرسوں کی کانفرنسز اورریفریشر کورسز کروانے چاہئیں تاکہ انٹرنیشنل معیار کے مطابق کام ہو۔ نرسنگ کیئر کے بغیر‘ ہاسپٹلائزیشن کا تصور ممکن نہیں ہے‘‘۔

مزیدخبریں