ثناء ناز
(گورنمنٹ فاطمہ جناح کالج چونا منڈی لاہور)
سونو کے گھر ایک بہت پرانی کرسی تھی جس کے پایوںپر نقش ونگار اور بیل بوٹے کُندا تھے،یوں لگتا تھا جیسے کسی بادشاہ کی کرسی ہو۔یہ کرسی گھر کے سٹور روم میں پڑی تھی۔ جب بھی سونو چھپ کر وہاں پہنچنے کی کوشش کرتا کوئی نہ کوئی چیز سڑک جاتی اوراباجان کو پتہ چل جاتا۔ لیکن جب سونو نے چوتھی جماعت میں شاندار نمبروں سے کامیابی حاصل کی تو اباجان نے اسے اپنے پاس بُلایااورکہا کہ آج تم جو مانگو گے انکار نہیں کروں گا۔سونو نے کہا میری دلی خواہش ہے کہ اس کرسی پر بیٹھوں۔پاپ نے کہا پہلے اس کرسی کی حقیقت جان لو!سونو دور کہی ایک خوشحال بستی آباد تھی جہاں پر رہنے والے ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی حسنِ سلوک سے پیش آتے تھے۔اگر کسی کا جھگڑا ہو رہا ہوتا تو خاموش تماشائی نہ بنتے بلکہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ایک دن جب بستی کے کچھ لوگ دوسری بستی کی طرف جاتے ہوئے راستہ بھول گئے تو انہیں ایک ویرانے میں ایک کُرسی پڑی ملی۔ اس کرسی کی خوبصورتی نے ان پر ایک جادو سا کر دیا اور وہ اسے اُٹھا کر بستی میں لے گئے اور بیچ چوراہے رکھ دیا۔ ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ کرسی صرف اُسی کی ہو جائے کرسی کے لالچ میں ہر کوئی ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ جھوٹ عام ہو گیا۔ ایک دوسرے کی مدد تو دور، سب دوسروں کو مشکل میں دیکھ کر قہقہے لگانے لگے دیکھتے ہی دیکھتے اس بستی کی کایا ہی پلٹ گئی ۔ایک دن اُس بستی میں ایسی خوفناک آندھی آئی جس کی لپیٹ میں سب آگئے، ہر طرف آہوں پکار اور مدد کے لیے آوازیں گونجنے لگیں۔ اس گھڑی کسی کو کرسی کا خیال نہ آیا اور سب نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا ایک دوسرے کو سہارا دیا۔ اتنے میں ہوا کا ایسا بگولا اُٹھا جس نے کرسی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا سب خوف سے کاپنے لگے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انہیں سمجھانے کا طریقہ تھا کیونکہ بسا اوقات بندوں کو سیدھی راہ پر لانے کے لیے سختی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اور اللہ نے انہیں یہ سختی دِکھا کر آپسی محبت سلوک دوبارہ یاد دلایا۔کچھ عرصہ بعد ان کی شخصیت میں وہ اخلاق حسنہ پروان چڑھنے لگا جو کبھی ان کا خاصا تھے یعنی بے حسی دم توڑتی گئی اور وہ خلوص کے رشتے میں بندھتے گئے سونو نے دھیمی سی آواز میں کہا ابا جان کیا یہ وہی کرسی ہیں ابا جان نے جواب دیا نہیں لیکن یہ اُسی کی یاد دلاتی ہیں تم جانتے ہو تمہارے دادا اسے میرے لیے لائے تھے وہ مجھے کچھ سیکھانا چاہتے تھے جب میں تمہاری عمر کا تھا مجھے بھی اس پر بیٹھنے کا بے حد شوق تھا۔ تو کیا اب بھی تم اس کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہو؟ سونو نے معصومیت بھری آواز میں جواب دیا نہیں ابا، میں نہیں چاہتا۔مجھے ایسی کرسی نہیں چاہئے جو مجھے چھوٹا اور خود غرض بنا دے بلکہ میں ایسا گوشہ چاہتا ہو جہاں مجھے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوں۔