سیاست میں روحانیت کا کمال

May 13, 2019

فاروق عالم انصاری

پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے اپنی کتاب ’’تاریخ تصوف ‘‘ میں ہندو مت ، عیسائیت ، یہودیت سمیت مختلف مذاہب میں تصوف کی موجودگی کا ذکر کیا ہے ۔ پچھلے دنوں عمران خان نے القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہا کہ روحانیت سپر سائنس ہے ۔ یقینا روحانیت کا یہ پہلو صرف مسلم تصوف سے خاص ہوگا۔سننے میں یہی آیا ہے کہ جہاں سائنس کی حدود ختم ہوتی ہیںوہیں سے روحانیت کی حدود شروع ہو جاتی ہیں۔’’ تذکرہ غوثیہ‘‘ پڑھتے ہوئے انسان روحانیت کا دائرہ اختیارد یکھ کر دنگ رہ جاتا ہے ۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سبز پوش درویشوں کے عمل دخل کا پتہ چلتا رہا ہے ۔ اللہ جانے ہندوستان کے ساتھ ہماری 1971کی جنگ میں یہ اللہ والے کیوں اتنے لا تعلق رہے ہیں؟ہمیں سقوط ڈھاکہ کی شکل میں کتنی ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم پاکستانی ایک بدقسمت قوم واقع ہوئے ہیں۔ ہمارے ساتھ ہمیشہ ہاتھ ہو جاتا ہے ۔ 1977ء میں الیکشن میں دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی ۔ پھر نجانے یہ خالص جمہوری جدو جہد تحریک نظام مصطفی میں کیسے ڈھل گئی ۔ تحریک انصاف کی ساری جمہوری جدو جہد حکومتی نظام میں کرپشن کے خلاف تھی ۔سیاست سے لاتعلق ہماری نوجوان نسل اسی وجہ سے سیاست کی طرف راغب ہوئی کہ شاید اسطرح روایتی سیاست کی اصلاح ممکن ہو ۔ اب تحریک انصاف کے ’’روح رواں‘‘بھی روحانیت کی طرف رواں دواں دکھائی دے رہے ہیں۔ شریعت اور طریقت الگ الگ راستے ہیں۔ شریعت کے کٹر طرفدار شہنشاہ ہند اورنگزیب عالمگیر سے شہزادہ دا ر الشکوہ کی طریقت برداشت نہیں ہوئی تھی ۔ پھر یہ مضمون اتنا احتیاط طلب ہے کہ علامہ اقبالؒ بھی ڈرتے جھجکتے صرف اتنا ہی کہہ سکے کہ :۔۔۔۔۔
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
بیشک شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے نام سے یونیورسٹی بنایئے ، بچوں کو روحانیت پـڑھایئے ۔ انہیں غوث قطب ابدال بنایئے ۔ لیکن یاد رکھیے کہ ایک سیاسی جماعت انسان کی بنیادی ضروریات سے آگے نہیں بڑھتی۔ ابن کثیر کے مطابق ’’ شریعت میں کمال محبت خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام عبادت ہے ‘‘۔ ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجود کو سمجھنے کی عام آدمی کو قطعاً ضرورت نہیں۔ کھڑی شریف کے عارف ’’خاصاں دی گل ،عاماں اگے‘‘کرنا ویسے بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ آج ملکی منظر نامہ میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ ملک وقوم کا پیسہ لوٹنے والے اگر اس بار بھی بچ نکلے تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔ ہمیں اپنی ساری توجہ اس طرف مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ ادھر ملکی وسائل کے لٹیرے بڑی ہنرمندی سے عوام کو یہ باور کروانے میں مصروف ہیں کہ نا اہلیت کرپشن سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے ۔ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ یہ بات اب بڑے غور سے سن بھی رہے ہیں ۔روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث عام عوام کا بہت برا حال ہے ۔ انہیں زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔
روٹی امیر شہر کے کتوں نے چھین لی
فاقہ غریب شہرکے بچوں میں بٹ گیا
اک شاعر نے کہا تھاکہ کل شہر میں اتنی لوٹ مار مچی کہ دن دیہاڑے سپیروں سے سانپوں کے پٹارے تک لوٹ لئے گئے ۔ آپ اسے شاعرانہ مبالغہ کہہ سکتے ہیں لیکن یہ سچ ہے کہ پچھلے ادوار میں سرکاری املاک اور مال و اسباب کی اتنی لوٹ مار ہوئی کہ ریل کے انجن تک چوری کر لئے گئے ۔ یار لوگ اس خبر کے ساتھ اتفاق فائونڈری کی بھٹیوں کی وسعت اور کشادگی کا ذکر بھی کرتے تھے ۔ ایک ریلوے انجن کی گمشدگی کی خبر ہندوستان سے اردو کے ادیب رضا علی عابدی بھی لائے ہیں۔ اس واقعہ میں پڑھنے والوں کیلئے سوچنے سمجھنے کیلئے بہت کچھ ہے ۔ رضا علی عابدی نے یہ واقعہ اپنی تازہ کتاب ’’مجھے سب یاد ہے ‘‘ میں لکھا ہے ۔ انہیں بی بی سی کی اردو سروس کیلئے ایک دستاویزی پروگرام تیار کرتے ہوئے پتہ چلا کہ برصغیر میں پہلی ریل گاڑی ہندوستان کے شہر روڑکی میں چلائی گئی ۔ روڑ کی ان کی جنم بھومی تھی ۔ شاید اسی وجہ سے ان کی اس خبر میں دلچسپی بڑھ گئی ۔ انہیں ہندوستان کے پہلے ریلوے انجن دیکھنے کا اشتیاق بھی پیدا ہو گیا۔کھوج لگانے پر پتہ چلا کہ یہ دخانی انجن ایک عرصہ تک کام کرتا رہا پھر اسے یادگار کے طور پر کسی میوزیم میں رکھ لیا گیا ہے ۔ اب اسی انجن کا اتا پتہ معلوم کرنے عابدی روڑکی ریلوے ورکشاپ کے سپرنٹنڈنٹ گپتا کے دفتر پہنچ گئے۔ دفتر کی میز پر فائلوں کے انبار کیساتھ ایک گھریلو ساخت کا ریڈیو جیسا آلہ بھی پڑا ہوا تھا۔ اس میں سے ایک اونچا سا ایریل بھی نکلا نظر آتا تھا۔ عابدی نے اسے اپنے آنے کی غرض و غایت بیان کی تو وہ بولا۔’’ مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ انجن کہیں گم ہو گیا ہے ۔ پہلے بھی کچھ گورے اسے دیکھنے آئے تھے لیکن انہیں بھی اس کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا‘‘۔ اس پر عابدی میز پرپڑے ریڈیو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے’’ معلوم ہوتا ہے کہ آپ الیکشن کی خبریں بڑے شوق سے سنتے ہیں۔اسی لئے یہ ریڈیو یہاں دھرا ہوا ہے ‘‘۔ ان دنوں ہندوستان میں عام انتخابات ہو رہے تھے ۔اس پر گپتا نے ایک عجیب کہانی سنائی ۔ کہنے لگا ۔ ’’ویسے تو میں انجینئر ہوں۔ لیکن میرا روحانیت پر ایمان ہے ۔ میرا خیال ہے کہ میں ووٹر کے لاشعور میں اپنا روحانی پیغام اتار کر اسے بی جے پی کا حامی بنا سکتا ہوں۔ یہ میرا ٹیپ ریکارڈ ہے ۔ اس میں میرا پیغام محفوظ ہے ۔ یہ پیغام آپ ہی آپ سننے والوں کے دل و دماغ میں اتر جاتا ہے ۔ میں اس طرح ووٹروں کے لاشعور کو بی جے پی کا حامی بنا رہا ہوں‘‘۔ گپتا کی بات ختم ہوئی۔ عابدی نے اس سے ہاتھ ملایا اور دل ہی دل میں یہ سوچتے ہوئے دفتر سے نکل آئے ’’یہاں صرف ریلوے انجن ہی نہیں بہت کچھ گم ہو گیا ہے ‘‘۔

مزیدخبریں