ہمارے محترم سینئر کالم نگار اسداللہ غالب صاحب نے سابق ڈائریکٹر پنجاب پبلک ریلیشنز چودھری انوارالحق مرحوم کے حوالے سے اپنی جانب سے تو یقینا پورے خلوص دل کے ساتھ ماضی کے کچھ معاملات پر روشنی ڈالی ہے مگر ڈی جی پی آر سے ملحقہ لاہور پریس کلب کے 2کنال کے پلاٹ پر پیر غائب علی شاہ کا مزار تعمیر کرانے کا ’’کارنامہ‘‘ چودھری انوارالحق کے کھاتے میں ڈال کر انہوں نے ایسی بحث کے دروازے کھول دیئے ہیں جو مرحوم کی شخصیت کے موضوع بحث بننے کا باعث بن سکتی ہے۔ غالب صاحب کے اس کالم پر شعیب بن عزیز نے بھی میرے ساتھ یقینا اسی ناطے سے شکوہ کیا ہے کہ اس سے مرحوم کی بیوہ کو اذیت پہنچی ہے۔ چودھری انوارالحق کی پہچان ماروی سرمد کے حوالے سے ہرگز نہیں ،ان کا اپنا تشخص، اپنی شناخت اور اپنا مقام تھا اور ایک دیندار کی حیثیت سے ان کا منفرد مقام تھا۔ میں نے ماروی سرمد کیلئے ان کی شفقت پدری کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھا جب 90ء کی دہائی میں ماروی کو میرٹ میں چند نمبر کم ہونے کے باعث ایم بی بی ایس کیلئے میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں مل سکا۔ چودھری صاحب اپنی صاحبزادی کو ساتھ لیکر میڈیکل کی میرٹ پالیسی کو چیلنج کرنے کیلئے لاہور ہائیکورٹ آپہنچے تھے، اس وقت ماروی سہمی سہمی ، دھان پان سی، شرمیلی سی بچی تھی۔ چودھری صاحب نے پی آر او ہائیکورٹ کے آفس میں موجود ہائیکورٹ رپورٹرز سے اپنی صاحبزادی کا تعارف کرایا اور میڈیکل میں داخلے کیلئے متعینہ میرٹ پالیسی کو کوستے ہوئے اپنی بیٹی کا داخلہ نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔ وہ اپنی بیٹی کی اس محرومی پر افسردہ ایک شفیق باپ نظر آرہے تھے اور طالب دعا تھے کہ ان کی بیٹی لاہور ہائیکورٹ میں سرخرو ہو جائے مگر لاہور ہائیکورٹ نے میڈیکل کی میرٹ پالیسی پر ہی صاد کیا۔ چنانچہ ماروی کی میڈیکل کی تعلیم کیلئے مرحوم چودھری انوارالحق کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ اس کے بعد ماروی کے مستقبل کا کیا تعین ہوا، چودھری صاحب سے نیازمندی والے تعلقات کے باوجود میں اس سے یکسر لاعلم تھا۔ اس کا نام بھی پہلے ماروی نہیں تھا۔
ایک دن ایک ٹی وی ٹاک شو میں ماروی سرمد کو میں نے حافظ حمداللہ کے ساتھ الجھتے دیکھا، جس پر حافظ حمداللہ کا ردعمل انتہائی خوفناک تھا۔ نوبت گالم گلوچ تک جا پہنچی تھی۔ اگلے روز رئوف طاہر کے ساتھ گپ شپ کے دوران اس ٹاک شو کاتذکرہ ہواتو انہوں نے مجھے بتایا کہ ماروی سرمد چودھری انوارالحق کی صاحبزادی ہیں ۔اس وقت ہائیکورٹ والا سارا منظر میری آنکھوں کے آگے گھومنے لگا۔ رئوف طاہر کی تصدیق غیریقینی سی لگی پھر دل کو تکلیف بھی محسوس ہوئی۔ جس ٹاک شو کے ناطے سے اسداللہ غالب صاحب کو کالم لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی، وہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے ماروی سرمد اور فلم و ڈرامہ نویس خلیل الرحمن قمر کے مابین ہوئی گالم گلوچ کے حوالے سے تھا اور غالب صاحب کا خیال ہے، جس کا انہوں نے اپنے کالم میں اظہار بھی کیا کہ ماروی سرمد کو گالی دے کر خلیل الرحمن قمر چودھری انوارالحق کی موت کا باعث بنے ہیں۔ اس حوالے سے چودھری انوارالحق جیسے شفیق باپ کی اذیت کا اندازہ یقینا کوئی اور نہیں لگا سکتا۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ وہ یقینا ایک بخشی ہوئی روح ہیں۔ ہمیں کسی بھی حوالے سے ان کے معاملہ میں کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جو خلط مبحث میں ان کی ذات کو متنازعہ بنانے پر منتج ہوسکتی ہو۔
لاہور پریس کلب کے پلاٹ پر قبضے کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا جسے چودھری انوارالحق کے ساتھ منسوب کرکے یقینا نادانستگی میں انکی شخصیت پر سوال اٹھانے کی گنجائش نکالی گئی ہے۔ میں چونکہ خود بھی اس پلاٹ کے معاملہ میں ایک فریق رہا ہوں، اس لئے پلاٹ پر قبضے کا ’’کارنامہ‘‘ چودھری انوارالحق کے ساتھ منسوب ہونے پر مجھے بھی خاصی حیرت ہوئی۔ چونکہ برادر مکرم چودھری خادم حسین نے اس پلاٹ کے پریس کلب کیلئے حصول اور اس پر قبضہ کیلئے پیر غائب علی شاہ کا مزار راتوں رات تعمیر ہونے کے اصل واقعہ کی پوری تفصیل اپنے قسط وار کالم میں بیان کر دی ہے، اس لئے اس پر مزید کوئی بات کرنے یا گرہ لگانے کی گنجائش نہیں۔ یہ پلاٹ پنجاب حکومت نے غالباً 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لاہور پریس کلب کیلئے مختص کیا تھا، اس وقت سید عباس اطہر لاہور پریس کلب کے صدر اور طارق وارثی سیکرٹری تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اگلے سال 1976ء میں خود اس پلاٹ پر پریس کلب کی تعمیر کاسنگ بنیاد رکھا۔ میں وثوق سے تو نہیں کہہ سکتا، غالباًاس وقت ضیاء الاسلام انصاری پریس کلب کے صدر منتخب ہوچکے تھے۔ اگر کوئی صاحب اس کی تصدیق یا تردید کر دیں تو بہتر ہوگا۔ میں اس وقت پیشہ صحافت میں نووارد تھا، اس لئے مجھے ان تفصیلات کا قطعاً علم نہیں تھا جو چودھری خادم حسین نے اپنے کالم میں بیان کی ہیں۔ اس پلاٹ پر قبضے کا میں 1984ء میں فریق بنا، جب میں لاہور پریس کلب کا سیکرٹری منتخب ہوا۔ کلب کی نومنتخب گورننگ باڈی کے پہلے اجلاس میں ہی قبضہ گروپ کیخلاف مقدمہ درج کرانے اور پلاٹ واگزار کرانے کی جدوجہد شروع کرنے کی منظوری دی گئی چنانچہ میں نے سیکرٹری پریس کلب کی حیثیت سے اس وقت کے معروف لیبر لیڈر ملک آفتاب ربانی اور قبضہ گروپ کے دوسرے ارکان کیخلاف پولیس تھانہ سول لائن میں اندراج مقدمہ کی درخواست داخل کرائی، جس پر رپٹ تو درج ہوگئی مگر ملزمان کے اثرورسوخ اور انہیں ضیائی مارشل لاء کی آشیرباد حاصل ہونے کے باعث تفتیش آگے ہی نہ بڑھ سکی۔ اس ایف آئی آر میں چودھری انوارالحق یا ڈی جی پی آر کے کسی کردار کا کوئی تذکرہ نہیں تھا، اس میں پیر غائب علی شاہ کے فرضی نام سے پلاٹ پر تعمیر کئے گئے جعلی مزار کو مسمار کرنے کی استدعا بھی کی گئی تھی مگر قبضہ گروپ کی ’’ہنرمندی‘‘ کی تاثیر کا اندازہ اس سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مزار اب عقیدت مندوں کیلئے مرادیں بر آنے کا مرکز بن چکا ہے۔
اس پلاٹ کے ساتھ چونکہ لاہور پریس کلب کی پوری تاریخ وابستہ ہے، جس کی چودھری خادم حسین صاحب نے بھی کچھ ورق گردانی کی ہے اور مزید ورق گردانی کیلئے مجھے بھی اکسایا ہے، اس لئے میں اپنا فرض گردانتے ہوئے لاہور پریس کلب کے نشیب و فراز کی اس داستان کی کچھ پرتیں کھول رہا ہوں جو یقینا آج کی صحافی برادری کے غالب حصے کے علم و آگاہی سے دور ہے۔ یہ داستان ضیاء الحق کے 1977ء کے مارشل لاء کے نفاذ سے شروع ہوتی ہے، جب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ اس سے پہلے تک صحافی برادری میں دائیں بائیں والے نظریاتی اور مفاداتی اختلافات کے باوجود ایک ہی پی ایف یو جے، ایک ہی پی یو جے اور ایک ہی پریس کلب ہوتا تھا۔ دیال سنگھ مینشن والا فلیٹ پی یو جے کو لیز پر ملا تھا جو پی یو جے اور لاہور پریس کلب دونوں کے تصرف میں رہا۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء سے پہلے پی ایف یو جے کے انتخاب میں رشید صدیقی منہاج برنا سے چند ووٹوںسے ہارے تھے جنہوں نے اپنی شکست تسلیم نہیں کی تھی، چنانچہ ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہوتے ہی وہ اس غیرآئینی حکومت کے پلڑے میں آگئے جن کی ضیاء الحق نے بھی اپنے مفادات کے تحت سرپرستی شروع کردی۔ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ پی ایف یو جے کا گروپ تشکیل دیا اور صحافیوں کی سیاست اور پریس کلب سمیت ان کے پلیٹ فارمز پر مکمل قابض ہوگئے۔ اس ناطے سے وہ پی یو جے اور پریس کلب کی ڈمی تنظیمیں خود ہی بناتے رہے۔ اس وقت مارشل لاء کا جبر ایسا تھا کہ کلمہ حق کہنے پرقید، کوڑے اور قلعہ بندی معمول بن چکی تھی۔ چنانچہ ہماری کمیونٹی میں منہاج برنا کا گروپ جس کے کچھ ارکان کو قید اور کوڑوں کی سزا بھی مل چکی تھی، مصلحتاً خاموش ہو کر غیرمؤثر ہوگیا اورتنظیموں کے انتخابات سے بھی گریز کیا جانے لگا۔ رشید صدیقی نے مجھے بھی پی یو جے کا غالباً جوائنٹ سیکرٹری نامزد کیا تھا مگر میں اس گروپ میں کبھی متحرک نہیں رہا۔
جبر کی اسی فضا میں لاہور پریس کلب کی بحالی کیلئے کچھ صحافی دوستوں نے 1983ء میں ایک تحریک کا آغاز کیا جس کا مرکز مال روڈ لاہور والا روزنامہ ڈان کا بیورو آفس تھا۔ اس تحریک کے محرک انجم رشید، محمود زمان، صادق جعفری اور اظہر جعفری تھے جنہوں نے کلب کے احیاء کیلئے دستخطی مہم شروع کی جس کی ساری پلاننگ نثار عثمانی صاحب کی سرپرستی میں ’’ڈان‘‘کے آفس میں ہی کی گئی۔ میں اس وقت ’’نوائے وقت‘‘ میں ہائیکورٹ رپورٹر اور اپوزیشن اتحاد ایم آر ڈی کا بیٹ رپورٹر تھا اور ’’ڈان‘‘ میں یہی بیٹ سید ممتاز احمد کے پاس تھی اسی طرح ڈان کے دوسرے ارکان اشرف ممتاز ، طارق ذہین اور عارف بھائی کیساتھ بھی میرے روابط تھے جن کی بدولت نثار عثمانی صاحب سے بھی نیاز مندی والے تعلقات بن گئے تھے چنانچہ ہائیکورٹ سے نکلتے ہوئے میں اکثر سید ممتاز احمد کے ساتھ ’’ڈان‘‘ کے آفس آجاتا جو میرے آفس سے چند قدم ہی آگے تھا۔ اس طرح میں بھی اس دستخطی مہم کا حصہ بنا اور جب مختلف اخبارات کے 200 کے قریب ارکان نے اپنے دستخطوں کیساتھ پریس کلب کے احیاء کی تائید کر دی تو تحریک چلانے والے دوستوں نے ہی مدیر سرراہے ’’نوائے وقت‘‘ بابا وقار انبالوی کو بھی اس تحریک کی سرپرستی پر قائل کرلیا جن کی سربراہی میں الیکشن کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سید امجد حسین اور احمد بشیر اس کمیٹی میں بطور رکن شامل ہوئے۔ (جاری)
ماروی سرمد، پریس کلب کا مقبوضہ پلاٹ اور میری یادیں
May 13, 2020