مارچ سے پاکستان سمیت پوری دنیا کرونا وبا کی وجہ سے خوف و حزن میں مبتلا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وبا سے نجات دے تا کہ قوم خوف و حزن سے باہر نکل سکے۔ بنیادی طور پر خوف اس پریشانی کو کہتے ہیں جوکسی آنے والے (متوقع) خطرہ کے احساس سے پیدا ہو اور حُزن اس غم یا فکر کو کہتے ہیں جو اس حادثہ کے نتیجے کے طور پر لاحق ہو۔ یعنی خوف کا تعلق مستقبل میں واقعہ ہونیوالے حادثہ کے احساس سے ہوتا ہے اور حزن کا تعلق ماضی میں گزرے ہوئے حادثہ کی وجہ سے پیدا شدہ نقصان سے ہوتا ہے۔ لیکن بالعموم خوف، کسی محسوس خطرہ سے پیدا شدہ پریشانی کیلئے بولا جاتا ہے۔ ذہنی پریشانی یا قلبی افسردگی کو حزن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
خوف، وہ زہر قاتل ہے جس سے شرفِ انسانیت تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ دنیا میں انسان، دوسرے انسان کے سامنے یا تو کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرنے کیلئے جھکتا ہے یا کسی خطرہ سے بچنے کیلئے ۔ زندگی کی انتہائی کامیابی یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں جن سے انسان پر خوف و حزن طاری رہے۔ قرآنی معاشرہ کے افراد کی نمایاں خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ ان پر کسی قسم کا خوف اور حزن نہیں ہوتا۔
خوف کے معنوں میں خشیت کا لفظ بھی آتا ہے۔ یہ خوف سے زیادہ شدید ہوتا ہے کیونکہ اسکے بنیادی معنی پودے کا خشک ہو کر بالکل جھلس جانا ہیں۔
موجودہ صورتحال جو ہم پر گزر رہی ہے۔ اس کا مقابلہ ہمیں حوصلہ، ہمت اور استقامت سے کرنا ہو گا۔ انشاء اللہ یہ مشکل وقت گزر جائیگا اور ہم نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو جائینگے۔ ہوائیں موسموں اور دعائیں مصیبتوں کا رخ بدل دیتی ہیں۔ آرزو اور زندگی لازم و ملزوم ہیں۔ جب آرزو نہ رہے تو زندگی اور موت برابر ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی رو سے انسان جذبات، خواہشات یا آرزوئیں مذموم شے نہیں کہ ان کو دبا دیا جائے۔ انسانی جذبات فنا نہیں کیے جا سکتے۔ معروف سکالر، رائٹر اور دانشور رانا احتشام ربانی کی ایک تحریر ہے جس کا عنوان ہے ’’سورج کی روشنی۔ خوف کا اندھیرا‘‘ رانا صاحب لکھتے ہیں ’’روشنی نہ ہو گی تو بچوں کو امتحان کی تیاری کیلئے خوف ہو گا۔ گیس، بجلی بل ادا کرنے کی رقم نہ ہو گی تو خوف ہو گا۔ انسانوں کو درپیش کسی جائز مسئلہ کے حل کیلئے رشوت کی رقم نہ ہو گی تو خوف ہو گا۔ گھر، بازار، مارکیٹ، سفر میں لُٹ جانے کااحساس رہے گا تو خوف ہو گا۔ کسی بھی قسم کے ظلم، زیادتی ہو جانے پر انصاف خریدنے کیلئے رقم نہ ہو گی تو خوف ہو گا۔ عبادت گاہوں میں عبادت کے دوران دہشت گردی ہو جانے کا خدشہ ہو گا تو خوف ہو گا۔ انسانوں کے جس معاشرے میں ایسے سب ڈر خوف ہوں گے وہاں خوشی کا تصور کیا ہو گا؟
زندگی گزارنے، ڈر کے مارے، خوف کے سہارے۔ نظام بھی، حکمران بھی، عدلیہ کے ارکان بھی، افسران بھی، نمائندگان بھی، ایسا سب کچھ ہونے کے باوجود خوف کے سائے، ایسی فضا میں خوشی، خوشحالی، امن، سلامتی، خواب کی طرح۔ خوشی کے دعوے خود کو دھوکا دینے کی مانند۔ دنیا کے متعدد ممالک کے انسانوں نے عقل و شعور کے استعمال، دیانت و انصاف پر عمل کرتے ہوئے ایسے خوف دور کیے ہیں۔ ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں‘‘ ۔ خوف ہی کے حوالے سے مشہور ترقی پسند شاعر ڈاکٹر خالد جاوید جان کی چار پانچ سال پرانی ایک غزل ہے:۔؎
کل کا خوف لگا ہوا ہے، کل کیا ہو گا
ہر چہرے پر یہی لکھا ہے، کل کیا ہو گا
جس رستے پر بھی جاتا ہوں، رستہ روکے
آگے ایک سوال کھڑا ہے، کل کیا ہو گا
کہنے کو یہ سادہ سے الفاظ ہیں، لیکن
سوچو تو یہ کڑی سزا ہے، کل کیا ہو گا
’’آج‘‘ تو جیسے تیسے کر کے بِیت گیا ہے
دل کو جانؔ اب یہ دھڑکا ہے، کل کیا ہو گا
طارق بلوچ صحرائی نے اپنی کتاب ’’سوال کی موت‘‘ میں لکھا ’’دل کو بھی خوف کی ہوا نے گھیرا ہوا ہے۔ اسکے اندر خوف ہر صورت موجود رہتا ہے۔ چاہے وہ خوف دنیا کا ہو یا خدا کا، اگر دل سے خدا کا خوف نکل جائے گا تو دنیا کا خوف اسکی جگہ لے لے گا اور اگر دل میں خدا کا خوف سما جائیگا تو دنیا کا خوف اس میں سے نکل جائے گا‘‘ ۔ جہاں تک ممکن ہو، لوگوں کے دکھ درد میں کام آئیں ۔ خدمتِ خلق دنیا کی سب سے بڑی نیکی ہے جو روحانی خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ اس میں کوتاہی نہ کریں۔ نیک کام کرنیوالوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں۔ زندگی کی سہولتیں اور آسانیاں حاصل کرنا چاہتے ہو تو مشکلات کا سامنا کرو۔ ایک انسان دوسرے انسان سے مایوس ہو سکتا ہے لیکن انسانیت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ انسان صرف زمین میں سانس لیتا ہے اور انساینت زمانوں میں زندہ ہے۔