منظر فضائے دہر میں سارا علی ؓ کا ہے

ماہِ صیام رواں دواں ہے۔ شب بیداری ہے۔ آہ و زاری ہے۔ چشم تر ہے، شرمساری ہے۔ سچ یہ ہے کہ محض عبادت و ریاضت نہیں بلکہ ندامت ہی چارہ ہے، ورنہ جو اس کے سامنے اَڑ جائے، وہ محفل سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ دھتکار دیا جاتا ہے۔ جہاں ماہِ صیام ندامت کا موقع فراہم کرتا ہے، وہاں اکیس رمضان کے واقعے کا کرب بھی تازہ کر دیتا ہے جب ابوالحسن، حیدر کرار مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنی جاں جانِ آفریں کے سپرد کی تھی، جام شہادت نوش کیا تھا اور برملا کہا تھا واللہ میں کامیاب ہو گیا۔ اللہ کی راہ میں جان دی تھی، خود کووار دیا تھا، باطل کے سامنے حق کا عَلَم بلند کئے رکھا تھا، اور اسلام کے اصولوں پہ کبھی کوئی مصلحت نہ دکھائی تھی۔ اس سفر میں جان سے جانا پڑتا ہے۔ حق یہ ہے کہ حق والے حق کی خاطر خود کو حق پہ نچھاور کرتے آئے ہیں۔ حق والے یونہی سرخرو ہوتے آئے ہیں۔ یہی حق ہے۔ حق جاننا ہو تو حق والوں سے نسبت استوار کر لی جائے۔ حق والے عوام الناس کی آنکھوں میں ہمیشہ سے کھٹکتے آئے ہیں، وہ باطل کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر جیتے آئے ہیں۔ ان کا جینا ہی اصل جینا ہے۔ ان کے جینے کو دوام ہے۔ دوام کی مثال دیکھئے! مولا علیؑ کا ذکر چپہ چپہ ہے، قریہ قریہ، نگری نگری ہے حتیٰ کہ جسم و جاں میں علی علی ہے۔ ظاہر و باطن میں علی علی ہے۔ جلوت و خلوت میں علی علی ہے۔ سانسوں کی مالا اور دل کی دھڑکن اسی ذکر میں مست ہے بلکہ سرمست ہے۔ سرکارِ کل جہاں صلاۃ والتسلیم کے فرامین میں سے ایک یہ ہے کہ ذکرِ علی عبادت ہے۔ تبھی تو علی علی کی صدا ہر دم ہے۔ آنکھ نم ہے۔ رمضان کی یہ گھڑیاں جہاں باعثِ بخشش ہیں، وہاں مولا علی کے جسم اطہر کو چیرتے زہر آلود خنجر کا کرب بھی محبانِ علیؓ کے لئے تڑپ کا ایک مسلسل سامان ہے۔ شہادت کے اس واقعے سے محبانِ علی کی روح تڑپ جاتی ہے۔ کرب در کرب ہے۔ اس کرب کا تعلق قُرب سے ہے۔ قُرب ہو تو کَرب محسوس ہوتا ہے۔ یہ قُربِ حیدرِ کرار کی بات ہے، یعنی قرار در قرار کی بات ہے۔ ذکرِ حیدرِ کرار میں ہی قرار ہے اور جس کی آنکھ میں یہ ذکر کھٹکے، وہ ازلی بے قرار ہے۔ جہاں کرب در کرب ہے، وہاں کسک در کسک ہے، جس کی دوا نجف ہے۔ بہ قول اقبال سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ ونجف۔ یہ بے قرار روحوں کی دوا ہے۔ مومن کے لئے یہ جزا ہے کہ دِلوں پر ثبت مولا علی کی ہر اک ادا ہے۔ یہ ادا ہی شفا ہے۔ اسی میں بقا ہے۔
بسترِ رسول پہ مولا علیؓ ہیں۔ وہی کہ جس کے ذکر سے درِ خیبر اب بھی کانپتا ہے۔ وہی کہ جس کا ذکر مومن اور منافق کی پہچان کا سبب ہے۔ یہ ذکر مومن کی غذا ہے۔ ذکر والوں میں اس ذکر سے جان پڑ جاتی ہے جبکہ منافق کے چہرے اس ذکر سے بگڑ جاتے ہیں، پیشانی شکن آلود ہو جاتی ہے۔ یہی واحد کسوٹی ہے۔ مولا علی کے در سے نسبت رکھنے والوں کے اطوار ہی جدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے چہرے، چہرہ مرتضیٰ کی طرف کئے رکھتے ہیں کیونکہ روایت میں یہ بھی ہے کہ مولا علیؓ کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے۔ یہ تزکیہ کرتے الفاظ بھی ہر دم سماعتوں کی زینت بنتے ہیں! جس کے رسول کریمؐ مولا، اس کے علی مولا ہیں۔ وجہ تخلیقِ کائناتؐ کی خدائے بزرگ وبرتر سے التجا دیکھئے! اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے، اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔نیز یہ بھی کہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔ میں علم کا شہر، اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ حقیقت میں درِ مرتضیٰ درِ مصطفی ہے۔ درِ مصطفی کا پتا درِ مرتضیٰ میں پنہاں ہے۔ یہ تعلق کی بات ہے بلکہ تعلق در تعلق کی بات ہے۔ مصطفیؐ و مرتضی کا تعلق روح اورجسم ا یسا ہے۔ آپؐ ہادی ہیں اور یہی ہدایت مولا علیؓ کے سینہ میں پیوست ہو کر چہار دانگ عالم معرفت کا رنگ لیے پھیل گئی۔ یہ رنگ کسی طور صبغتہ اللہ سے جدا نہیں۔ اس رنگ کی پہچان نصیب والوں کو عطا ہوتی ہے۔ حقیقت و معرفت کے اس رنگ میں رنگے جانے کی جستجو بہرصورت زندہ رہنی چاہئے۔ یہ جستجو سائل کو مولا علی کے در پہ لے جاتی ہے اور اس کا ظاہر و باطن علی علی کی صدا میں گم بلکہ گم سم ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر ولی علی علی سے ولی ہے۔ شاہِ ولایت کی چوکھٹ سراپا راز ہے۔ سلسلہ ہائے طریقت کی منزل اسی دہلیز پہ موقوف ہے۔ جس کے مرشد مولا علی ؓہوں، اس کا سارا سفر درِ علی کے گرد گھومتا ہے۔ راہِ سلوک کے راہی کی قدم قدم پہ اسی دَر پہ نظر رہے توسفردر سفر کی طویل کہانی سمٹ کر رہ جاتی ہے، گویا منزل مل جاتی ہے۔
مولا علی تمام دِلوں اور روحوں کے محبوب ہیں۔ محب کے لئے محبوب کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے! بقول جنابِ واصف علی واصفؒ ’’محب کی نگاہ کا علاج محبوب کے چہرے میں ہے‘‘۔ یہ محبوبیت جسم و روح میں سفر کرتی ہے۔ نسل در نسل، سینہ بہ سینہ زینے طے کرتی ہے۔ ہر زینے پہ علی علی کی صدا ہے، جس سے چشمِ بینا مل جاتی ہے۔ بصیرت نصیب ہو جاتی ہے۔ گویا دل کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ حجابات اٹھ
جاتے ہیں۔ یہ دنیائے معرفت و روحانیت ہے۔ یہاں حاسدینِ علی کا گزر نہیں۔ یہ محبانِ علی کی راہ ہے۔ یہ عاشقین کا سفر ہے۔مولا علی ؓپیغمبرؐ کے جانشین اور وارث ہیں۔ آپ ؓمحبوبِ مصطفی ہیں۔ علی حق اور باطل کے درمیان فرق کا نام ہے۔ حق علی ہے، اور علی حق ہے۔ علی ہمیشہ حق کے ساتھ اور حق ہمیشہ علی کے ساتھ ہے۔ حق کی اطاعت حق ہے۔ مولا علی کی ولادت اور شہادت حق کا نشاں ہے۔ اللہ کے گھر خانہ کعبہ میں تولد ہونا اور پھر اللہ کے گھر مسجد میں جان جانِ آفریں کے سپرد کرنا مولا علی کے ہی
اوصاف ہیں۔ یہ علی کی شان ہے۔ اس شان کا شاہد قرآن ہے اور رسولؐ کی مبارک زبان ہے۔ ہر دو جہاں میں علی علی ہی زادِ راہ اور سامان ہے۔ یہ محبانِ علی کا ایمان ہے۔ یہ ایک الگ جہان ہے۔ نصیر الدین نصیرؔؒ کا اعلان ہے:
منظر فضائے دہر میں سارا علی کا ہے
جس سمت دیکھتا ہوں نظارہ علی کا ہے
ہم فقر مست چاہنے والے علی کے ہیں
دل پر ہمارے صرف اجارہ علی کا ہے

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...