یہ ان دنوں کی بات ہے جب وزارت مذہبی امور کے سیکرٹری محمد لطف اللہ مفتی ہوا کرتے تھے۔مرحوم مظہر رفیع کی وجہ سے سیکرٹری صاحب سے کافی دوستی ہوگئی ایک روز میں ان کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔کافی دیر بات کے بعد جب سیکرٹری صاحب نے فون بند کیا تو بتانے لگے مولانا فضل الرحمان تھے مولانا مکی کی سفارش کر رہے تھے ۔مولانا مکی حجازی پاکستانی نثراد سعودی ہیں ان کی مکہ مکرمہ میں کچھ پرانی عمارات بھی ہیں۔ سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ مولانا کہہ رہے تھے کہ مولانا مکی کی عمارات لے لیں۔لیکن سیکرٹری صاحب نے بات ڈائریکٹر حج پر ڈال دی کہ عمارات تو وہی لیتے ہیں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔اسی سال ہم بھی حج ڈیوٹی کے لئے سعودی عرب گئے تو ہم نے ڈائریکٹر حج سے پوچھا کہ مولانا مکی کی عمارات بھی آپ نے لی ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ان کی عمارات بہت زیادہ بلندوبالا جگہوں پر واقع ہیں اگر وہ حاجیوں کے لئے لیتے ہیں تو حجاج کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔1995کی بات ہے محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں مکہ مکرمہ کے ایک معلم کمال محمود ناصر نے آصف علی زارداری کی سفارش پر 45ہزار عازمین حج کو مکانات فراہم کرنے کا کنٹریکٹ لے لیا جس کے بعد مکانات کے کل کرایوں کی رقم کا پندرہ فیصد ایڈونس رقم بھی وصول کر لی۔ہمیں ڈائریکٹر حج احمد بخش لہٹری نے حج رہنمائی کے لئے اپنے دفتر میں بیٹھنے کو کہا۔ جب حجاج کرام مکہ مکرمہ پہنچتے تو ان کے ٹھہرنے کے لئے مکانات نہیں ہوتے تھے عجیب و غریب منظر تھا حجاج احرام کی حالت میں ہمیں بر ا بھلا کہتے کہ آپ لوگوں نے ہمارے پیسے کھائے اور ہم در بدر ہو رہے ہیں۔ڈائریکٹر حج بھی اپنی جگہ پریشان کہ کیا کیا جائے ۔ سعودی نے صرف پندرہ ہزار حاجیوں کیلئے مکانات دیئے۔وفاقی وزیر حج سید خورشید شاہ بھی مکہ مکرمہ پہنچ چکے تھے ۔ ایک روز ہم ان سے ملنے چلے گئے تو کھانا کھا رہے تھے پوچھنے لگے عاصی جی انتظامات کیسے ہیں ؟ہم نے بتایا کہ بہت خراب ہیں حجاج عمارات کے بیسمنٹ میںٹھہرائے گئے ہیں سعودی تعلمیات حج کے مطا بق کسی حاجی کو کسی عمارت کے تہہ خانے میں نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔کھانے کے بعد انہوں نے ہمیںساتھ لیا اور ہم انہیں مسجد الحرام کے سامنے حفائر میں اس عمارت میں لے گئے جہاں حجاج کو تہہ خانے میں رکھا گیا تھا۔شاہ صاحب خاصے ناراض ہو ئے جس کے بعد ہم انہیں باب عبدالعزیز کے سامنے اشراف مکہ والی عمارت میں لے گئے تو حجاج نے شکایات کے انبار لگا دئے ایک کمرہ کے حاجی شکایت کر رہتے تھے کہ وہ ایک دن کے جدہ گئے جب واپس لوٹے تو ان کے کمرہ میں اور حجاج ٹھہرئے ہوئے تھے۔یہ تمام عمارات بھی اسی سعودی نے دی تھی جس نے 45 ہزار حاجیوں کو رہائش فراہم کرنے کا کنٹریکٹ لیا تھا۔مدینہ منورہ میںبھی ایک طویل مدت تک سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والا سعودی سید حمزہ بافقعی حاجیوں کی بڑی تعداد کو رہائش فراہم کرنے کا کنٹریکٹ لے لیا کرتا تھا کوئی ایک عشرے تک مسلسل وہ پاکستانی حاجیوں کو رہائش مہیا کرتا رہا کنٹریکٹ میں وہ حاجیوں کی نصف تعداد کو رنگ روڈ کے اندر جسے اب مرکزیہ کہاجاتا ہے رہائش فراہم کرنے کا کنٹریکٹ کر لیا کرتا تھا لیکن معاہدے کے مطابق وہ کبھی بھی پوری عمارات رنگ روڈ کے اندر نہیں دیا کرتا تھا۔یہ دور بھی نوا ز شریف کا دور تھا حمزہ بافقعی اور کمال محمود ناصر دونوں بڑے اثر ورسوخ والے سعودی تھے گو کہ اب وہ دونوں جہان فانی سے کوچ کرچکے ہیں مکہ مکرمہ میں بھی مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن کو پاکستان ہاوس میں جب ملازمت دی گئی تو اس نے ہاوس میں قیام کرنے والے مہمانوں کو ایرپورٹ تک ٹیکسی کرا کر دینے کی آڑ میں جب بھتہ لینا شرو ع کر دیا تھا ڈائریکٹر جنرل شاہد خان کو جب اس کے بارے میں شکایات موصول ہوئیں تو انہوں نے اسے ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔لیکن اب بھی وہ مکہ مکرمہ میں ہی ہے اور سعودی مستاجروں سے مل کر پاکستانی حاجیوں کو عزیزیہ میں مکانات دینے کا کاروبار کر رہا ہے مصدقہ اطلاعات کے مطابق بہت سی عمارات ایسی ہیں جو وہی مسلم لیگی پاکستان حج مشن کو دلوا رہا ہے ۔گذشتہ دور میں تو اسے مسلم لیگی ہونے کی وجہ سے پاکستان ایمبسی سکول جدہ کی گورننگ باڈی کا رکن بھی بنا دیا گیا تھا اس کے خلاف اسکول کے بہت سے اساتذہ نے سکول کے انتظامات میں مداخلت کرنے کی شکایات
بھی کیں لیکن مسلم لیگی ہونے کی وجہ سے ان کی شنوائی نہ ہو سکی۔پاکستانی حاجیوں کے لئے رہائشی انتظامات میں سیاسی لوگوں کی مداخلت ہمیشہ سے
رہی ہے یہی وجہ سے کہ سعودی عرب میں ہمارے حاجیوں کے رہائشی کرایہ پرائیویٹ ٹور آپرٹیروں کے ساتھ جانے والے عازمین حج سے بہت زیادہ ہوتا ہے جس کی بڑی وجہ ایک ہی ہے سرکاری رہائش کے لین دین میں جو بھی جماعت برسراقتدار ہوتی ہے اس کے وزراء اور ارکان اسمبلی کی بہت زیادہ مداخلت ہوتی ہے کیونکہ جب بھی سیاسی لوگ حج و عمرہ کے لئے سعودی عرب جاتے ہیں تو وہاں رہنے والے ایسے پاکستانی جو مکانات کے لین دین کا کام کرتے ہیں وہ سیاسی لوگوں کی خاطر مدارت کرنے کے علاوہ انہیں تحفے تحائف بھی واپسی پر دیتے ہیں اس طرح جب مکانات کرایوں پر لینے کو موسم آتا ہے تو وہ لوگ انہی سیاسی لوگوں سے مذہبی امور کے افسران کو سفارش کرا لیتے ہیں تاکہ ان کی عمارات کرایوں پر چڑھ جائیں سعودی عرب میں بہت سے پاکستانیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سعودی واقف کاروں کی عمارات پاکستانی حاجیوں کو ہی دیں جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے پاکستان ایک واحد ملک ہے جو مکانات کے کرایوں کی رقم بہت جلد ادا کر دیتا ہے اسی لئے سعودیوں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے مکانات پاکستانی حاجیوں کو ہی دیں۔بہرکیف اگر حکومت کو حج انتظامات کو شفاف بنانا مقصود ہو تو اس کے لئے حج انتظامات میں سیاسی مداخلت کو روکنا ہو گا اگر حج انتظامات میںسیاسی لوگوں کی مداخلت بند ہو جائے تو یہ بات یقینی ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہائشی کرایوں میں بہت زیادہ کمی ہو سکتی ہے لیکن اس مقصد کے لئے تب ہی کامیابی ممکن ہے جب حج انتظامات کو کلی طور پر سیاسی اثر ورسوخ ختم کر دیا جائے۔