اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے فارسی زبان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے لیکن گزشتہ چند عشروں سے حکومت اور عوام دونوں نے ہی اس سے بے اعتنائی برتنا شروع کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے طلبہ کی ایک کثیر تعداد علم کے ان خزانوں سے محروم ہو گئی جو فارسی زبان میں موجود ہیں۔ بہت عرصے تک اسکولوں میں فارسی کو ایک لازمی حیثیت داخل تھی خاص طور پر چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک طلبہ سے کہا جاتا تھا کہ وہ فارسی کی تعلیم حاصل کریں۔ اس کا دہرا فائدہ ہوتا تھا ۔ ایک تو یہ کہ فارسی زبان سے شناسائی ہوتی تھی اور دوسرا یہ کہ فارسی زبان کی گرامر کم وبیش ویسی ہی ہے جیسے کہ اردو کی۔ اس لیے طلبہ کو زیادہ مشکل پیش نہیں آتی تھی اور دہ دونوں زبانوں میں ہی عبور حاصل کر لیتے تھے ۔ اسی طرح فارسی کو کالج میں ایک انتہائی اہم مقام حاصل تھا۔ علامہ اقبال کو شاعر مشرق کہا جاتا ہے لیکن ہمارے آج کے بہت سے طلبہ اس بات سے نا واقف ہوں گے کہ انہیں ایسا کیوں کہا جاتا ہے ۔ یہ کہنا کہ انہوں نے پاکستان کے لیے ایک خیال پیش کیا اور اس وجہ سے وہ شاعر مشرق کہلائے ، اگر بالکل غلط نہیں تو اسے کسی طورپر درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جرمنی کے مشہور شاعر نے گوئٹے نے مغربی افکار پر ایک کتاب قلمبند کی ۔ انہوں نے مشرق اور مغرب کے تصورات کو یکجا کیااور ایران کے حافظ شیرازی کے خیالات سے استفادہ کیا اور یہ بتایا کہ فارسی اور لاطینی کے خیالات میں تبادلہ ممکن ہے ۔ اس کتاب کے جواب میں اقبال نے پیام مشرق تحریر کی اور انہوں نے اپنے کئی خطوط میں واضح کیا کہ ان کی یہ کتا ب فارسی زبان میں ہے اور یہ گوئٹے کی کتاب کے جواب میں لکھی گئی ہے ۔ یہی وہ بنیا دہے جس کی وجہ سے اقبال کو شاعر مشرق کا لقب دیا گیا۔ اردو کے عظیم مزاح نگاراحمد شاہ پطرس بخاری نے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا ہے کہ آج کا اردو کا مصنف اپنی ان ادبی روایات سے محروم ہو چکا ہے جو اسے فارسی زبان نے دی تھیں۔ اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ فارسی کا ادب لازوال ہے ۔ فارسی نے بہت سے شاعر پیدا کئے ۔ حافظ شیرازی کے کلام کے بارے میں تو کہا گیا ، ہست قرآن در زبان ِ پہلوی۔ یعنی اس کی اتنی ہی اہمیت ہے کہ یہ فارسی زبان کا قرآن کہلا سکتا ہے ۔ شیخ سعدی کی کتابیں گلستان اور بوستان ادبی سرمایہ ہیں۔ آج بھی جو طالب علم درس نظامی میں داخلہ لینا چاہتا ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نے گلستان اور بوستان پڑھ رکھی ہوں۔ شیخ سعدی کی حکایات میں علم دفن ہے ۔ نہ صرف یہ کہ اس میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے بلکہ یہ بھی کہ اس میں زبان کا چسکا بھی موجود ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں ، انٹر میڈیٹ کی سطح پر ان کی کچھ حکایات کا انگریزی ترجمہ پڑھایا جاتا ہے ۔ جب یہ ممکن ہے تو ایسا کیوں نہیں کہ ہم ان ہی حکایات کو اسی زبان میں پڑھنا اور پڑھانا سیکھیں جن میں وہ لکھی گئی تھیں۔ لیکن وقت کی انگڑائیوں کے سبب ہم نے اس خزانے کو کھو دیا ہے ۔ اب لوگ اس بات میں دلچسپی لیتے ہیں کہ وہ پنجابی اور سرائیکی پڑھیں۔ اپنی مادری زبان میں دسترس ضرور حاصل کرنی چاہئے ، یہ ہر طالب علم کا بنیادی حق ہے لیکن جہاں تک علوم کے خزانوں کا تعلق ہے ، انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
فارسی رخصت ہوئی تو ہم نے علم کے خزانوں کو دفن کر دیا ۔ ہم ان محاوروں سے ہاتھ دھو بیٹھے جو ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھے۔ بہت سارے محاورے جو ہماری عام زندگی کا حصہ بن چکے تھے ، اب انہیں سمجھنا اور سمجھانا نا ممکن دکھائی دیتا ہے ۔ سکولوں سے فارسی زبان کو رخصتی ملی تو کسی نہ کسی طور یہ کالجز میں موجود تھی۔ اور کچھ نہ سہی ، بی۔ اے میں طلبہ اسے آپشنل مضمون کے طورپر ضرور پڑھتے تھے ۔ اگرچہ اس کی افادیت اتنی زیادہ نہ تھی لیکن پھر بھی اس سے کچھ نہ کچھ زبان سے آشنائی ضرور ہوتی تھی۔ چونکہ ہر چیز میں لوگوں کا ذہن کاروباری ہوتا چلا گیا تو لوگوں نے فارسی کی بجائے ان مضامین کی طرف توجہ دینا شرو ع کی جن میں وہ زیادہ نمبر لے سکتے حالانکہ فارسی زبان میں بھی نمبر اچھے خاصے ہی آ جاتے تھے ۔ ہمارے کچھ ساتھیوں نے اپنے مضمون کی اہمیت بڑھانے کے لیے طلبہ کو سو میں سے نوے اور یہاں تک کہ اٹھا نوے نمبر بھی دینا شرو ع کر دیئے ۔ طلبہ دھڑا دھڑ ان مضامین کی طرف متوجہ ہوئے اور فارسی کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی ۔ پھر ایک دور ایسا بھی آیا کہ کہا جانے لگا ، پڑھو فارسی ، بیچو تیل ۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے ملک خاص طورپر بر صغیر کے افسانہ نویس، شاعر اور دیگر قلمکار اس بات میں فخر محسوس کرتے تھے کہ وہ فارسی زبان کی تراکیب سے آشنا ہیں اور کسی حد تک اپنا ما فی الضمیر بھی بیان کر سکتے ہیں ۔ حیرت یہ ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے کے تمام شاعر اردو کے ساتھ ساتھ فارسی زبان میں بھی شاعری کرتے تھے اور ان کی شاعری کو سراہا جاتا تھا۔ اردو کے مشہور شاعر مرزا غالب نے تو اپنے اردو اور فارسی کلام کے بارے میں کچھ یوں کہا تھا:
فارسی بیں تا بہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگذر از مجموعہ اردو کے بے رنگ من است۔
ان کا یہ کہنا تھا کہ اگر میرے کلام کی رنگینی سے لطف اندوز ہونا ہو تو میرا فارسی کا کلام پڑھیں۔ اردو کا کلام تو بالکل بے رنگ ہے ۔ ان کا فارسی کا کلام واقعی قابل ستائش ہے ۔ علامہ اقبال نے بھی فارسی میں بہت کچھ لکھا۔ ان کے فارسی کے کلام میں اسرار خودی ، زبور بے خودی، زبور عجم، پیام مشرق، ارمغان حجازشامل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مغل دربار میں فارسی سرکار ی زبان بھی تھی ۔ اور ایسے بھی شاعر موجود تھے جو فی البدیہہ شعر کہتے تھے ۔ اکبر کے دربار میں فیضی نے فارسی زبان میں جس طرح شاعری کی اور جس طرح اسے پروان چڑھایا ، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ کہاجاتا ہے کہ اس نے قرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ لکھا جس میں کوئی بھی ایسا لفظ نہیں ہے جس میں نقطہ استعمال کیا گیا ہو۔ فارسی زبان سے دوری نے ہمیں ہماری ادبی روایات سے دور ہی نہیں کیا بلکہ مکمل طورپر محروم کر دیا ہے ۔ ہمارا دانشور طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ صرف انگریزی ہی ہمیں معاشرے میں اہم مقام دلاسکتی ہے ۔ اس میں تو بحث نہیں کی جاسکتی کہ انگریزی زبان کی افادیت بھی ہے اور اہمیت بھی لیکن فارسی کو اس کی حیثیت سے محروم کر دینا قطعی طورپر دانشمندی نہیں ہے ۔ اگر فارسی کو برقرار رکھا جاتا تو ہمارے بہت سارے اساتذہ جو مشرقی لسانیات کے ماہرین تصور کئے جاتے تھے ، اپنی ملازمتوں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھتے ۔ فارسی کے ساتھ ساتھ عربی بھی اس حیثیت سے دور ہو گئی جو کبھی اسے حاصل تھی ، اس پر بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ۔ تاہم، سر دست ہمارے معزز ماہرین تعلیم کو اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ کس طرح فارسی کو اس کا جائز مقام دلایا جا سکتا ہے ۔ کم از کم ایسا تو ہو کہ ہم فارسی کے ساتھ ساتھ اردو کی گرامر کو بھی سیکھ سکیں۔
فارسی زبان کی تدریس
May 13, 2020