ہوش رباگرانی کب ختم ہوگی؟

May 13, 2021

ملک میںمہنگائی کا طوفان تھم نہیں سکا۔ حکمرانوں کے دعوے، وعدے اور رمضان بازاروں کے دورے مہنگائی پر اثر انداز نہ ہوسکے، گرانی کی شرح 17.05 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔غریب عوام کی جیبیں صاف کرنے والے مافیائوں نے ماہ صیام کے آخری عشرے میں مزید کمر کس لی تھی۔ ادارہ شماریات کے مطابق ہفتہ رفتہ میں ایک طرف آٹا ، چینی ،دالیں، دودھ ، دہی، گوشت ، گھی ، گڑ اور سرسوں کے تیل سمیت 18 اشیائے ضرورت کے نرخوں میں اضافہ دیکھا گیا، دوسری طرف بجلی کی قیمت بھی 90 پیسے فی یونٹ بڑھ گئی۔ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں صارفین پر 90 ارب روپے کا مزید مالی بوجھ ڈالا گیا ،جس پر ہائی کورٹ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ عوام کا مذاق بنا دیا گیا ہے۔ دو روپے سستی چیز گھر کی دہلیز پر ملنی چاہیے۔ عدالت عالیہ نے استفسار کیاکہ کس قانون کے تحت ساری چینی رمضان بازاروں میں فروخت کی گئی ۔حکومت طلب اوررسد میں توازن اور قیمتیں کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔
کورونا کی تباہ کاریوں اور آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کے باعث عوام کا جینا محال ہو چکا۔ حکمرانوں کی ڈنگ ٹپائو منصوبہ سازی ناکام رہی، مہنگائی پر قابو نہ پایا جانا دراصل حکمرانوں کو اس گمبھیر مسئلہ کی بنیاد ی وجوہ کا ادراک نہ ہونا ہے جب تک اشیائے ضرورت کی طلب ، رسد کے مطابق یقینی نہ بنائی جائے اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں استحکام نہ لایا جائے،عوام کا مہنگائی کے جان لیوا اثرات بد سے محفوظ رہنا ممکن ہی نہیں۔حکمران فیصلے کرتے وقت زمینی حقائق کو مدنظر رکھنے کے بجائے مسئلہ کا وقتی حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ عوام کو محض صبر کی تلقین اور مہنگائی ایسے مسئلہ پر ماضی کے حکمرانوں کو کوستے چلے جانا، یہ مسئلہ کا حل ہرگز نہیں۔ باشعور عوام حکمرانوں کے ان دلائل پر کان دھرنے کو تیار نہیں ۔ ایسا لگتا ہے جان لیوا مہنگائی پر عوام کا شدید احتجاج، میڈیا کے صائب مشورے اور عدلیہ کے باربار سخت ریمارکس بھی حکمرانوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس نہیں دلاسکے۔ عدالت عالیہ کے روز کے ریمارکس، حکومت کی جانب سے ساری چینی رمضان بازاروں میں فروخت کرنے کے فیصلہ پر سوالیہ نشان ہیں۔ مہنگائی میں کمی اسی صورت نظر آئیگی جب سستی اشیائے ضرورت عوام کو انکی دہلیز پر دستیاب ہوں گی۔ رمضان بازاروں اور مارکیٹوں کیلئے الگ الگ ضابطہ اخلاق سمجھ سے بالا تر ہے ایسے اقدامات کا مفاد پرستوں کو نوازنے کے سوا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اگر سستے بازاروں میں چینی کنٹرول ریٹ پر فروخت کر سکتی ہے، تو عام مارکیٹوں میں ایساکیوں ممکن نہیں۔حکمرانوںکیلئے توجہ طلب بات یہ ہے کہ وہ جن اشیاء کو کھلی مارکیٹوں میں سرکاری نرخوں پر فروخت کرنا چاہتے ہیں، وہ اشیاء مہنگے داموں کیوں فروخت ہوتی ہیں، وہ کون سے خفیہ ہاتھ ہیں، جو اس ضمن میں حکومت کی رٹ قائم نہیں ہونے دیتے اور قانون کو کھلونا سمجھتے ہوئے حکومت کے متعین کردہ نرخوںکے برعکس اشیائے ضرورت کھلے عام من مانے نرخوں پر فروخت کرتے ہیں۔جب تک حکومت معاشرے سے اس اخلاقی اور قانونی تضاد کو ختم نہیں کرتی، تب تک مہنگائی کا تدارک محض خواب رہے گا۔ حکمرانوں کو مہنگائی پر قابو پانے کیلئے بلند بانگ دعوئوں کی طرح اپنے طرز حکمرانی میں بھی بہتری لانی چاہیے۔ عوام مہنگائی سے تنگ آ کر خود کشیوں پر مجبور ہوں اور حکمران طفل تسلیاں دیتے رہیں، سہانے خواب دکھاتے ہوئے مسئلہ کا حل وعدہ فردا پر ڈالتے جائیں، یہ روش عوام میں احساس محرومی اور مایوسی کا باعث بنتی ہے۔ ایسی مثالیں تو شد ومد سے دی جاتی ہیں کہ دنیا بھر میں مذہبی اور قومی تہواروں پر ضرورت کی ہر چیز سستی اوروافر مقدار میں دستیاب ہوتی ہے ، سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں ؟ایسے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے کہ ہمارے ہاں بھی قانون اسی طرح بالا دست ہو جس طرح دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔یہ بات غور طلب ہے کہ ہمارے ہاں عوام کی جیبیں صاف کرنیوالا مافیا طاقت ور کیوں ہے یا یہ سب حکمرانوں کے کارندوں کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔حکمران جن مافیا ئوں کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں وہ بھی اسی ملک کے باشندے ہیں۔یہ پتہ لگانا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ یہ بااثر مافیا ملک میں کن لولوں کی اشیر باد سے من مانیاںکر رہا ہے۔ عید پرمہنگائی کا آسمان سے باتیں کرنا نئی بات نہیں یہ دیرینہ مسئلہ ہے، جس میں شدت آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد اس لئے آئی کہ اس ترمیم کے تحت مہنگائی پر قابو پانا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری قرار پاچکی ہے، جو اس سے عہدہ برا نہیں ہو سکیں۔پرائس کنٹرول کمیٹیاں اس لئے اپنی افادیت کھو چکی ہیںکہ ان کمیٹیوں کو کنٹرول کرنیوالے حکام مسلسل عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جب اداروں کی کارکردگی محض خبروں کی اشاعت اور فوٹو شوٹوں تک محدود ہو جائے تو مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہونا مشکل ہوتا ہے ۔
ماہ صیام اختتام پذیر ہوا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عید کی خوشیوں کے اس اجتماعی تہوار پر امیروں کی طرح غریبوں کے چہرے بھی ہنستے مسکراتے نظر آئیں، ہر گھر میں پسند کے پکوان تیار ہوں اور امیروں کی طرح غریبوں کے بچوں کو بھی نئے ملبوسات زیب تن کرنے کو مل سکیں،ایسا تبھی ممکن ہے جب چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں معلوم ہونے پر خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے عوام کی جیبیں بھی انہیں اجازت دیں کہ وہ یہ چیزیں خرید سکیں اور عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔ پاکستان ایک ایسا زرعی ملک ہے جہاں ضرورت کی ہر چیز وافر مقدار میں پیدا ہونے کے باعث سستے داموں عوام کو ان کی دہلیز پر دستیاب ہو سکتی ہے شرط یہ ہے کہ اس کیلئے خلوص نیت سے جامع منصوبہ سازی کی جائے۔یہ کام ایسے اقدامات سے ممکن نہیں جن کا مقصد محض عوام کی اشک شوئی ہو۔

مزیدخبریں