وزیراعلیٰ پنجاب میاں حمزہ شہبازشریف کی دربار حضرت بابا فریدالدین گنج شکر پر حاضری

خالد بہزاد ہاشمی

برصغیر پاک و ہند میں اسلام اولیائے کرام کے کردار و عمل، حُسنِ سلوک، رواداری، بھائی چارے، ایثار و قربانی کی بدولت پھلا پھولا اور آج بھی یہ آستانے بندگان خدا کے لئے رشد و ہدایت کا عظیم ذریعہ و خزینہ ہیں۔ پنجاب میں یوں تو سینکڑوں بڑی درگاہیں ہیں لیکن ان سب میں محافظ لاہور سید ہجویر حضرت داتا گنج بخش کو مرکزیت حاصل ہے جبکہ پاکپتن شریف میں حضرت شیخ العالم، شیخ کبیر، اجودھن کے درویش بابا فرید الدین مسعود گنج شکر اور ملتان میں حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی، حضرت شاہ رکن عالم، حضرت مادھولال حسین لاہور، حضرت میاں میر لاہور جیسے درخشندہ ستاروں کی کہکشاں اپنی روشنی سے ایک عالم کو منور کر رہی ہے۔ ان اولیاء کرام کے آستانوں سے ہر شاہ و گدا اپنی روحانی پیاس بجھانے اور من کی مراد پانے کے لئے حاضر ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض خانوادوں کی عقیدت تو تاریخ کا حصہ بن چکی ہے جن میں میاں محمد شریف، میاں شجاع الرحمن، چودھری عید محمد، میاں عبدالمجید، میاں معراج الدین فیملیز کی حضرت داتا گنج بخش سے عقیدت کے لوگ آج بھی گواہ ہیں۔ میاں محمد شریف  کی فیملی جب اندرون شہر مقیم تھی تو وہ تہجد کے وقت کاندھے پرجائے نماز اُٹھائے داتا دربار حاضری دیتے اور کئی مرتبہ انکی اہلیہ محترمہ بھی ان کے ہمراہ ہوتیں ان کے صاحبزادے میاں محمد نوازشریف کی حکومت کے خاتمہ کے بعد وہ یہاں باکثرت حاضر ہوا کرتے۔ آج پھر میاں محمد شریف مرحوم کے ایک صاحبزادے میاں شہبازشریف ملک کے وزیراعظم جبکہ ان کے پوتے میاں حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو چکے ہیں ا ور ہر دو حضرات نے اپنے انتخاب کے بعد داتار دربار میں حضرت سید مخدوم علی ہجویری کے حضور حاضری دے کر اپنی بے پاں عقیدت کا اظہار کیا ہے چونکہ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہبازشریف کا خمیر بھی روحانی اقدار و روایات کی مشک بار مٹی سے گندھا ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز دورہ پاکپتن کے موقع پر درگاہ حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر  پر حاضری دی، فاتحہ خوانی کی اور پھول چڑھائے اور مسجد اولیاء میں نوافل بھی ادا کیے۔ اس موقع پر زیب سجادۂ درگاہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر دیوان احمد مسعود چشتی نے ان کی دستار بندی کی اور ملک و قوم کی خوشحالی و ترقی کے لئے دعا کرائی۔ اس وقت لیگی رہنما خواجہ عمران نذیر،ماجد ظہور، دیوان حامد مسعود چشتی، دیوان عثمان فرید چشتی، پیر عبدالزاہد چشتی، پیر یعقوب منظور چشتی، میاں احمد رضا مانیکا، ایم این اے رانا ارادت شریف ایم این اے، میاں نوید ایم پی اے، پیر کاشف علی چشتی ایم پی اے، ایڈمنسٹریٹر اوقاف ضیاء مصطفیٰ، منیجر اوقاف ضیاء سیفی بھی موجود تھے۔ وزیراعلیٰ میاں حمزہ شہبازشریف کو یاد دلاتے چلیں کہ یہ وہی آسمان سے بلند مقام و مرتبہ والا آستانہ ہے جہاں ان کے تایا محترم سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف بارہا تشریف لا چکے ہیں اور پانچ محرم 1990ء کو جنتی دروازہ کی قفل کشائی کے موقع پر انہوں نے درگاہ پر نو تعمیر مسجد کا سنگِ بنیاد بھی رکھا تھا جس کی تختی موجود ہے جبکہ انہوں نے درگاہ کے سجادہ نشین دیوان مودود مسعود چشتی کے توجہ دلانے پر پاکپتن شریف کو ضلع بنانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ میاں حمزہ شہبازشریف کے والد میاں شہبازشریف بھی اس در کی چوکھٹ پر حاضری کو اپنے لئے اعزاز گردانتے رہے ہیں جب یہاں بدبخت دہشت گردوں نے بم بلاسٹ کیا تو وہ بطور وزیراعلیٰ فوری تشریف لائے تھے اور متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی مقدور بھر کوشش بھی کی تھی دیگر سربرہان مملکت میں ذوالفقار علی بھٹو شہید، صدر ضیاء الحق، بینظیر بھٹو شہید (دو مرتبہ)،  محمد خان جونیجو، میرظفراللہ خان جمالی اور دیگر بھی تشریف لاتے رہے ہیں۔ سابق صدر مشرف جو اس وقت آرمی چیف بھی تھے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر دورہ پاکپتن کے دوران خواہش کے باوجود درگاہ پر حاضری دینے سے محروم رہے تھے۔
وزیراعلیٰ میاں حمزہ شہباز شریف کو یاد دلاتے چلیں کہ یہ وہی آستانہ عالیہ ہے جہاں انہوں نے فاتحہ پڑھی یہاں کی ہر اینٹ پر حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کے محبوب خلیفہ، محبوب الٰہی، سلطان المشائخ سلطان جی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے نئی دہلی سے تشریف لا کر یہاں ٹبے پر موجود درویشوں سے ایک ایک قرآن پاک پڑھوایا تھا اور قبل ازیں ٹبے کے ساتھ بہنے والے دریائے ستلج میں کھڑے ہو کر ان تمام اینٹوں کو شفاف پانی سے دھلوایا تھا اور لحد مبارک کے قدموں کی جانب وہی شہرہ آفاق بہشتی دروازہ ہے جہاں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے لحد کی تعمیر کے وقت عالم کشف میں پیارے نبیؐ اور چاروں خلفاء کرام کو داخل ہوتے ہوئے دیکھا تھا جو فرما رہے تھے: ’’جو کوئی اس راہ سے داخل ہوا اس نے امن و خیر پایا‘‘ وزیراعلیٰ میاں حمزہ شہبازشریف نے جس مسجد اولیاء میں دوگانہ نفل ادا کیے ہیں یہ وہی مسجد ہے جو حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے دلی سے پاکپتن شریف آمد کے بعد تعمیر کرائی تھی اور یہ ان کے نام گرامی سے مشہور اور یہاں نماز، تلاوت، نوافل اور دعاؤں کی صدیوں سے بہت قبولیت ہے۔ یوں یہ تاریخی و متبرک مسجد اپنے مقام، ساخت اور فنِ تعمیر کے لحاظ سے منفرد مرتبہ کی حامل ہے یوں تو اس درگاہ پر سابق وزیراعظم عمران خان وزیراعظم بننے سے قبل کئی مرتبہ حاضر ہوتے رہے ہیں اور وزیراعظم بننے کے بعد بھی آئے لیکن انہوں نے اس عظیم درگاہ میں استراحت فرمانے والے حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر سے کیے گئے مخلوق خدا کی خدمت کے عہد اور ان کی تعلیمات کی پاسداری نہیں کی جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
سلاطین دہلی کی حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر سے عقیدت ایک عالم پر آشکار ہے۔ اس سلسلہ سلطان ناصرالدین اور سلطان غیاث الدین بلبن کی وارفتگی و عقیدت احاطہ تحریر میں نہیں لائی جا سکتی۔ سلطان ناصر الدین کے وزیر الغ خان جو سلطان غیاث الدین بلبن کے نام سے دہلی کے تخت پر متمکن ہوا اسے حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرکی بشارت سے دلی کا تخت عطا ہوا اور وہ تاحیات اس کا برملا اعتراف کرتا جب سلطان کا لاکھوں کا لشکر اجودھن (پاکپتن شریف) سے گزرا تو آپکی زیارت کے لئے دہلی حاضر ہوا تو آپ نے اپنا پیراہن درویشوں کو دے کر اسے سڑک پر لٹکانے کا حکم د یا اور تمام لشکر آپ کے پیرہن مبارک کو تبرکاً چھوتے ہوئے گزر گیا اور آپکا پیرہن مبارک پارہ پارہ ہو گیا تھا۔ اس گناہ گار کا تعلق بھی حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے بڑے خلیفہ حضرت جمال الدین ہانسوی (ہانسی ضلع ہریانہ) کے خانوادہ سے ہے، حضرت بابا صاحب کی حضرت جمال الدین ہانسوی سے محبت کے واقعات تاریخ کا روشن باب ہیں  اور حضرت بابا صاحب آپ کی محبت میں تیرہ سال ہانسی میں مقیم رہے۔ یہ عظیم درگاہ چہار قطب کے نام سے بھی عالم میں مشہور ہے، سلاطین دہلی کی یہاں آمد رہی اور انہوں مقابر بھی بنوائے، سلطان التمش کی بیٹی رضیہ سلطان نے دہلی کا تخت چھننے کے بعد درگاہ کے احاطہ میں پناہ لی تھی اور وہ احاطہ آج بھی اس کے نام سے منسوب ہے۔
نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہبازشریف کو اپنے بزرگوں کی پیروی میں اس عظیم در اقدس کی حاضری مبارک ہو۔ حضرت داتا گنج  بخش، حضرت بابا فریدالدین اور دیگر بزرگان دین کی روشن تعلیمات اور اُن کا اُجلا کردار رموز مملکت و جہانبانی میں ہمیشہ انکی رہنمائی و معاونت کا فریضہ سرانجام دے گا۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن