محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ پنجاب صوبے کا انتہائی اہم محکمہ ہے جو عوام الناس کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کا ذمہ دار ہے لیکن آج کل اس محکمے کے افسران نے اس محکمہ کو محض اپنی انا اور ضد کی بھینٹ چڑھا رکھا ہیجس کی وجہ سے اسکی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔تفصیل ا س اجمال کی یہ ہے کہ گزشتہ ماہ 13 اپریل کوجنرل کیڈر کے ان ڈاکٹروں کو گریڈ 18 سے گریڈ 19 میں ترقی دی گئی جو محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن میں خدمات انجام دے رہے تھے ۔ لیکن ترقی کے احکامات جاری کرنے کے بعد محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ نے ان ترقی پانے والے ڈاکٹروں کی خدمات انکے اپنے محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کے سپرد کرنے کے بجائے ان سب کو خلاف ِ قاعدہ محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ میں ایڈجسٹ کرنے کے آرڈرز جاری کر دیئے ۔ جیسے ہی یہ آرڈرز جاری ہوئے متعلقہ ڈاکٹرز میں اور محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن میں تشویش کی شدید ترین لہر دوڑ گئی۔ صورتحال کی سنگینی اور ممکنہ نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئرکے افسران نے فوری طور پر ایک ہنگامی میٹنگ بلائی اور محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کو اپنی جائز ضرورتوں، مجبوریوں اور مشکلات کا احساس دلایا کہ سپیشلائز ہیلتھ کیئر کے تمام شعبہ جات اور تمام ہسپتال ان سینئر ڈاکٹرز کی سروسز اور مہارت کی بنیاد پر چلتے ہیں اور انکے پاس تو پہلے ہی سینئر ڈاکٹرز کی بہت کمی ہے اس لیے ان ڈاکٹرز کو فوری طور پر محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کے حوالے کیا جائے لیکن کئی دنوں تک محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کی جانب سے کوئی رسپانس نہیں آیا تو انہوں نے 28 اپریل کو پچھلے لیٹر کا حوالہ دے کر دوبارہ توجہ دلائی کہ ان جنرل کیڈر ڈاکٹرز کو محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے حوالے کیا جائے۔ مگر محکمہ پرائمری کے اعلی افسران پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا جس کی وجہ محکمہ پرائمری ہیلتھ کیئر کی ایک ضد، انا اور ہٹ دھرمی ہے جس کے نتیجے میں ایک بلامقصد محکمانہ کھینچاتانی اور کشمکش کی کیفیت بن گئی ہے۔ سینئر ڈاکٹرز چیخ رہے ہیں کہ اس بوڑھی عمر میں وہ دربدر دھکے کیوں کھائیں؟ اور نئے سرے سے اپنے فیلڈ کیسے بدلیں؟ اس زمانے میں ان پر فیملی کا بھی بوجھ ہوتا ہے اور اکثر پر بچوں کی شادیوں اور انکے تعلیمی معاملات اور اخراجات کا بھی بوجھ ہوتا ہے مگرمحکمہ صحت میں کوئی ایک عوام دوست موجود نہیں جو ان سراپا احتجاج تجربہ کار ڈاکٹرز کی گزارشات پر توجہ دے۔ ان ڈاکٹرز میںاکثر تو وہ ہیں جو باقاعدہ سپیشلائزیشن کر چکے ہیں مگر بحیثیت سپیشلسٹ سلیکشن نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک جنرل کیڈر ڈاکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ کیا ان کو ان کے متعلقہ شعبہ جات سے بے دخل کرنا عوامی یا محکمانہ مفاد میں بھی ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا ایک تجربہ کار پلاسٹک سرجن کو نزلہ، زکام اور کھانسی کے مریض دیکھنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے، ایک آرتھو پیڈک سرجن کو ٹی بی کے مریض دیکھنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح ایک ریڈیالوجسٹ کوڈسپنسری چلانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ دانشمندی کہلائے گی؟ ہمارے کچھ ایسے ہی غیر دانشمندانہ اقدامات کے نتیجے میں انگلینڈ نے ہمارے ایف سی پی ایس ڈاکٹرز پر اضافی پابندیاں لگا دی ہیں لیکن اس جیسی پابندیاں انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز پر نہیں لگائیں۔ کیسے ممکن ہے کہ ہم غیر دانشمندانہ فیصلے کریں اور اسکے منفی اثرات سے بچ جائیں ۔ بہرحال یہاں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جس کی بنیادیں عقل و دانش میں تلاش کرنا بہت مشکل ہے اور اس کی وجہ ہے محض انا، ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں بلکہ اگر زیادہ واضح اور عام زبان میں بات کی جائے تو یہ درست ہے کہ یہاں پر تو ایک ہی محکمہ صحت کے دو حصے اپنے حقوق کو حاصل کرنے یا اپنی چودھراہٹ کیلئے ایسے آمنے سامنے ہیں جیسے دو سیاسی مخالفین، بہرحال عوامی مفاد کا تقاضا یہی ہے کہ محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ اپنی ضد چھوڑے اور لوگوں کے اجتماعی معاملات عقل و دانش ، ڈاکٹرز کے علم ، تجربے اور انکی ضروریات اور عالمی رول ماڈل کو ذہن میں رکھ کر طے کئے جائیں۔اس وقت ملک میں جو صورتحال ہے اور جس بری طرح ہم مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ ہمارے سرکاری محکموں خصوصا محکمہ صحت کے ذمہ داران ہوش کے ناخن لیں۔ مسائل میںگھری دکھی انسانیت کو مسائل سے نجات دلانے کی کوئی سبیل کریں نہ کہ ان میں اضافہ کرنے کی۔ بیوروکریسی نے بھی اگر سیاستدانوں کی طرح کھینچاتانی اور کشمکش کے دروازے کھول دئیے تو پھر ہمارے ملک کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ بیورو کریسی کو بہر حال اپنی ساکھ اور روایات کا پاس اور عوام الناس کی تکلیف کا احساس کرنا چاہیے۔