ملتان(توقیر بخاری سے) طبی سہولتوں کی عدم فراہمی، پنجاب میں دوران زچگی اموات میں اضافہ سرکاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2021 سے 2022 میں اب تک۔ جنوبی پنجاب اور پنجاب کے دیگر اضلاع کے بنیادی ہیلتھ یونٹس (بی ایچ یوز) اور دیہی ہیلتھ سینٹرز (آر ایچ سیز) میں ایک ہزار مائیں، 88 ہزار سے زائد نومولود اور پانچ سال سے کم عمر بچے جان کی بازی ہار گئے۔ رپورٹ کے مطابق اعداد و شمار سے دیہی سطح پر صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی اور خواتین و بچوں کی صحت کی دیکھ بھال میں درپیش مسائل کی نشاندہی ہوتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ پنجاب کے ترقی و منصوبہ بندی کے بورڈ کی جانب سے تیار کی گئی ہے، جو نوزائیدہ بچوں کی صحت اور غذائیت کے پروگرام (آئی آر ایم این سی ایچ) پر مرتب کی گئی ہے۔رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ آر ایچ سیز اور بی ایچ یوز میں 88 ہزار 21 بچوں کا انتقال ہوا، جبکہ 62 ہزار 813 بچے مردہ پیدا ہوئے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ زچگی کے دوران ماں اور نوزائیدہ کی اموات سے بچنے کے لیے شروع کیا گیا آئی آر ایم این سی ایچ پروگرام میں ناکام رہا۔صحت کے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ماؤں اور بچوں کی اموات کے اعداد وشمار ممکنہ طور پر اس سے زیادہ ہی ہوں گے۔ اسی طرح آئی آر ایم این سی ایچ پروگرام میں 25 ہزار 208 پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات ہوئیں جس میں 13 ہزار 706 نوزائیدہ بچے، 8 ہزار 45 شیر خوار جبکہ 3 ہزار 457 ایسے بچے شامل ہیں جن کی عمریں 5 سال سے کم ہیں۔علاوہ ازیں سال 2021 سے اب تک کے دوران پنجاب میں مجموعی طور پر 62 ہزار 813 بچے مردہ پیدا ہوئے۔آئی آر ایم این سی ایچ پروگرام میں خامیاں ظاہر کرتے ہوئے پنجاب کے سرکاری ہسپتال کا حوالہ دیا گیا جہاں ایک ہزار 439 بچوں کا انتقال غذائی قلت کی وجہ سے ہوا، ان میں سے 138 کو انتہائی نگہداشت یونٹ میں داخل کیا گیا تھا۔سی ای او ہیلتھ اتھارٹی ملتان ڈاکٹر شعیب گورمانی نے اپنے موقف میں کہا کہ غیرمحفوظ ڈلیوری کے خاتمے کے لئے گائناکالوجسٹ اورماہرین کی خدمات لی گئی ہیں اس کے علاوہ مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ ہاسپیٹل بھی تعمیر کئے جا رہے ہیں تاکی سیف ڈلیوریز کو فروغ دیا جا سکے مگر اب تک ہونے والی اموات افسوسناک ہیں۔