الغ بیگ :ستاروں کا شہزادہ

عظیم تیموری نسل میں پیدا ہوئے الغ بیگ نے اپنی ذہانت اور فلکیات اور ریاضی میں اہم پیش رفت کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔ الغ بیگ کے والد شاہ رخ، تیمور کے چوتھے بیٹے تھے اور 1407 عیسوی تک انھوں نے ایران اور ترکستان سمیت سمرقند پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر کے بیشتر سلطنت کا مجموعی کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اپنے دادا تیمور کے برعکس، الغ بیگ کا پیشہ اور شوق سائنس اور فنون میں تھا۔ وہ ایک موسیقار، شاعر، فلسفی، حافظ اور شکاری تھے اور ان کے پاس فلکیات اور ریاضی کا ہنر تھا۔1940عیسوی میں شاہ رخ نے خراسان (آج  کے مغربی افغانستان میں) ہرات کو اپنا نیا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا،شاہ رخ نے وہاں حکومت کی اور اسے ایک تجارتی اور ثقافتی مرکز بنا دیا۔ انھوں نے وہاں لائبریری قائم کی اور فنون کا سرپرست بن گیا۔ تاہم شاہ رخ نے سمرقند کو نہیں چھوڑا بلکہ انھوں نے اسے اپنے بیٹے الغ بیگ کو دینے کا فیصلہ کیا جو شہر کو ثقافتی مرکز بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے جتنا کہ وہ سیاست یا فوجی فتح میں تھے۔ اگرچہ الغ بیگ صرف سولہ سال کے تھے جب ان کے والد نے انھیں سمرقند (موجودہ ازبکستان) کا تحفہ دیا، وہ اپنے والد کے نائب اور ماوراء النہر(وسطی ایشیا) کے حکمران بن گئے۔1417 عیسوی میں علم فلکیات کو آگے بڑھانے کے لیے، الغ بیگ نے ایک مدرسہ بنانا شروع کیا جو کہ اعلیٰ تعلیم کا مرکز بن کر اُبھرا۔ سمرقند کے ریگستان اسکوائر کے سامنے والا مدرسہ  1420 عیسوی میں مکمل ہوا اور پھر الغ بیگ نے بہترین سائنسدانوں کو مقرر کرنا شروع کیا۔ چونکہ اسلامی کیلنڈر اور نماز کے اوقات قمری چالوں سے جڑے ہوئے ہیں، نویں صدی میں مسلم دنیا میں پہلی رصد گاہیں بننا ہونا شروع ہوئیں اور فلکیات اور ریاضی میں مسلمانوں کی دلچسپی کی وجہ سے علم و دانش کے مراکز کے طور پراُبھریں۔ قرطبہ اورطلیطلہ سے لے کر قاہرہ اور بغداد تک کئی رصد گاہیں تھیں، الغ بیگ کے دور تک، مسلم دنیا میں سینکڑوں ماہر فلکیات اور ریاضی دان پہلے ہی پیدا ہو چکے تھے۔ البتہ مراغہ رصد گاہ ایک تھی جس نے الغ بیگ کو متاثر کیاپھر  جمشید الکاشی یا کاشانی اور قاضی زادہ الرومی اس کی رصدگاہ کے اتالیق بنے۔ الغ بیگ کی فتوحات بنیادی طور پر زمین پر موجود ممالک کے بجائے آسمان، ستاروں اور سیاروں پر مرکوز تھیں۔ اپنے دور حکومت میں، الغ بیگ نے جنگ سے جتنا ہو سکا گریز کیا، اور اپنی پوری دولت فن، سائنس اور ثقافتی تقریبات پر خرچ کی۔اس نے سمرقند کے باہر ایک چٹانی پہاڑی پر تین منزلہ اونچی تقریبا 30 میٹر کی بلندی پر اپنی رصد گاہ بھی قائم کی۔ یہ قبل از جدید دور میں سب سے بڑی تھی اور اسے چمکدار ٹائلوں اور ماربل پلیٹوں سے خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ الغ بیگ کی اس رصد گاہ میں سب سے زیادہ قابل ذکر آلہ بہت بڑا سدس الفخری (Fakhri Sextant) تھا جس کا نصف القطر 40 میٹر تھاجس نے اسے اس وقت دنیا کا سب سے بڑا فلکیاتی آلہ بنا دیا تھا۔الفخری فلکیات میں بنیادی الثوابت(Constants) کا تعین کرتا ہے: چاند گرہن کا خط استوا کی طرف جھکنا، اعتدال الربعی (Vernal Equinox)کا نقطہ، استوائی سال کی لمبائی، اور سورج کے مشاہدے سے پیدا ہونے والے دیگر الثوابت۔ یہ بنیادی طور  پر  شمسی مشاہدات، چاند اور سیاروں کے لیے بنایا گیا تھا۔ سدس کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اس کے بڑے سائز کی وجہ سے دی گئی درستگی تھی۔ سدس کے قوس(Arc) پر، 70.2 سینٹی میٹر کی تقسیم ایک ڈگری کی نمائندگی کرتی تھی، جبکہ 11.7 ملی میٹر سے جدا ہونے والے نشانات ایک منٹ کے مساوی ہوتے تھے، جبکہ صرف 1 ملی میٹر کے فاصلے کے نشانات پانچ سیکنڈ کی نمائندگی کرتے تھے۔ سمرقند میں استعمال ہونے والی اشیاء میں اسطرلاب (Astrolabe)،  الأرباع(Quadrants) اور جیب ضلیع (Versed Sine) آلات کے ساتھ ساتھ ایک زرھی کرہ (Armillary Sphere)، ایک المنظرپیمانہ (Parallactic Ruler) اور ایک مثلث (Triquetrum) شامل تھے۔ الغ بیگ کی ہدایات پر اور اس کے تعاون سے وہاں کام کرنے والے رصد گاہ کے سائنسدانوں کی کامیابیوں میں درج ذیل شامل ہیں جن میں، مکعب المساوات (Cubic Equations) کے درست تخمینے کا حل، نظریۃ ثنائیۃ(Binomial Theorem) کاحل، الغ بیگ کی درست جدولیں(Tables of Sines) اور ظلال(Tangents) آٹھ اعشاریہ منازل تک درست ہیں،کروی مثلث کے فارمولے اور خاص اہمیت کی حامل الغ بیگ کی ستاروں کی تفصیلی فہر ست تھی جو کہ  بطلیموس(Ptolemy) کے بعد پہلی مفصل فہر ست تھی۔ الغ بیگ کی ستاروں کی تفصیلی فہر ست ذیج السلطانی کہلائی، ذیج السلطانی نے سترہویں صدی تک اس طرح کے کاموں کا معیار مقرر کیا۔ 1437  عیسوی میں شائع ہوئی ذیج السلطانی 992 ستاروں کی پوزیشن دیتا ہے۔ یہ رصدگاہ میں کام کرنے والے متعدد افراد کی مشترکہ کوشش کا نتیجہ تھا جن میں الغ بیگ، الکاشی اور قاضی زادہ قابل ذکر ہیں۔ رصدگاہ میں بنائے گئے مشاہدات کے جدولوں کے ساتھ ساتھ، کام میں کیلنڈر کے حسابات تھے اور نتائج علم المثلثات (Trigonometry) میں تھے۔ انھوں نے زمین کا محوری جھکاؤ 23.52 ڈگری کا تعین کیا، جو کہ آج تک کی سب سے درست پیمائش ہیمزید براں انھوں نے شمسی سال کی پیمائش 1437 میں کی، جس کا آغاز موسم بہار کے مساوات سے 365 دن 5 گھنٹے، 49 منٹ اور 15 سیکنڈ میں ہوا  جو کوپرنیکس کے تخمینے سے زیادہ درست ہے۔

 تاریخی اعتبار سے یہ ثابت ہے کہ مختلف مشہور مسلمان فلکیات دانوں نے وہاں کام کیا تھا اور اس رصد گاہ میں سیاروں اور ستاروں کے کچھ وسیع ترین مشاہدات یہاں کئے گئے تھے۔ الکاشی نے الغ بیگ کی مدد سے ایک مکینیکل سیاروں کا کمپیوٹر ایجاد کیا جسے انہوں نے پلیٹ آف زونز کہا، جو بیانیا(Graphically) طور پر سیاروں کے متعدد مسائل کو حل کر سکتا ہے، جس میں طول البلد میں حقیقی پوزیشنوں کی پیش گوئی بھی شامل تھی۔ الغ بیگ کے زمانے میں مشہور پانچ روشن سیاروں کی سالانہ نقل و حرکت کے مطالعے کے کچھ نتائج یہ ہیں:
الغ بیگ اور الکاشی کا  تعین
   جدید دور میں عین تعین
عطارد    530 43' 13''
 عطارد         530 43' 3''
زہرہ      2240 17' 32''
زہرہ        2240 17' 30''
مریخ     1910 17' 15''
مریخ         1910 17' 10''
مشتری    300 20' 34''
مشتری       300 20' 31''
زحل     120 13' 39''
 زحل         120 13' 36''

اس طرح الغ بیگ کے اعداد و شمار اور پہلے چار سیاروں سے متعلق جدید دور کے اعداد و شمار کے درمیان فرق دو سے پانچ سیکنڈ کی حد میں آتا ہے۔ جیسا کہ اعداد و شمار میں دیکھا جا سکتا ہے، الغ بیگ کے نتائج تقریبا وہی ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پائے جاتے ہیں۔
وہ اولین فلکیات دانوں میں سے ایک تھے جو مستقل طور پر نصب فلکیاتی آلات کی وکالت اور تعمیر کرتے آئے تھے۔ الغ بیگ یقینی طور پر پندھرویں صدی کے سب سے اہم مشاہداتی فلکیات دان تھیاور انھوں نے یہ سب کچھ پہلی دوربین کی ایجاد سے دو صدیوں پہلے حاصل کیا،1650 عیسوی میں لندن میں اپنے کاموں کے لاطینی ورژن کی اشاعت کے بعد  وہ یورپ میں مشہور ہوئے تھے۔ دی الغ بیگ آبزرویٹری کے نام سے ایک عجائب خانہ 1970 میں سمرقند میں ایک یادگاری تقریب کے طور پر بنایا گیا تھا، اور وہاں کوئی بھی بیگ کے سٹار چارٹس اور زیج السلطانی کو دیکھ سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کاپیاں ہیں، اصل طراحی (Drawing)آکسفورڈ انگلینڈ میں رکھی گئی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن