پولیس کی جگہ رینجرز بھیجیں ، کالر سے کھینچیں گے تو عوام میں انتشار آئے گا ، ہائیکورٹ 


لاہور (خبرنگار) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی مقدمات کی تفصیلات فراہمی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ عدالت نے عثمان بزادر پر درج مقدمات کا ریکارڈ آئندہ سماعت پر پیش کرنے کی ہدایت کردی۔ دوران سماعت جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دئیے سیاسی انتقام ہمارے ملک میں پرانا وطیرہ ہے، ریاست اپنے روئیے پر بھی نظر ثانی کرے، پولیس کی جگہ رینجرز کو بھیجیں گے اور کالر سے پکڑ کر کھینچیں گے تو عوام میں انتشار آئے گا، کیا ایسے گرفتار کیا جا سکتا ہے جس طرح آپ نے گرفتار کیا؟۔ شیشے توڑے گئے اور شیشے توڑنا غلط کام تھا۔ عام آدمی کسی کا دروازے توڑے تو فوری دفعہ 427 لگتی ہے، آپ لوگوں کے گھروں میں چھاپے مار رہے ہیں، توڑ پھوڑ کررہے ہیں اس پر قانونی دفعہ کیوں نہیں لگتی۔ آپ نے سپریم کورٹ کے ساتھ پچھلے ایک سال میں کیا کیا ہے۔ آپ اخبارات سے چیزیں پڑھ کر عدالتوں میں پیش ہوجاتے ہیں۔ سب سے زیادہ ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے، آپ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے ساتھ جو کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہے؟۔ آپ تو سپریم کورٹ کے فیصلے نہیں مانتے ہیں۔ پنجاب کے وکیل نے کہا کہ عدالتوں کو انفرادی طور کسی خاص شخص کو خاص ریلیف نہیں دینا چاہیے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دئیے کہ آپ کا رویہ ہتک آمیز ہے، آپ کو توہیں عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے کہا کہ آپ اخبارات سے متاثر ہو کر عدالتوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کر رہے ہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ عدالتوں میں ٹاک شوز والا رویہ اختیار نہیں کرنے دیں گے۔ گزشتہ ایک سال سے جو ملک میں ہورہا ہے اس پر ہم آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ایف آئی آر درج کریں اور دو گھنٹے بعد گرفتار کرلیں۔ گزشتہ ایک سال میں جو کچھ ہوا ہے اس پر ہم آنکھیں بند نہیں کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس نقطے پر دلائل دیں کیا کسی کو انصاف تک رسائی حاصل ہے یا نہیں؟۔ جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ ہوا کارکن زخمی ہوئے اتنا ردعمل نہیں آیا، گزشتہ دس برس کی رپورٹ آنی چاہیے کہ جب بھی حکومت بدلی تو مخالفین پر کتنے مقدمات ہوئے؟۔ سیاسی رہنماﺅں کا کیا کردار ہوتا ہے؟۔ کیا لیڈرشپ کا رویہ ایسا ہوتا ہے اورکیا ردعمل ایسا ہوتا ہے؟۔ اس ملک میں بے نظیر کو شہید کیا گیا مگر لیڈرشپ نے اپناکردار ادا کیا؟۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ کیا سیاسی رہنماﺅں کی ذمہ داری نہیں ہے وہ کارکنوں کو روکیں، ماضی میں بھی گرفتاریاں ہوتی رہیں، کیا یہ کوئی پہلی گرفتاری تھی جس کے بعد اتنا ہنگامہ ہوا۔ ماضی والی گرفتاریاں درست تھیں یا غلط وہ بعد میں ثابت ہوئی یا نہیں،گرفتاری ہوتی رہتی ہے مگر ایسا ردعمل کبھی نہیں دیکھا۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ انتہائی شکر گزار ہوں کہ عدالت نے اس پر فکر مندی کا اظہار کیا۔
ہائیکورٹ

ای پیپر دی نیشن