رانافرحان اسلم
ranafarhan.reporter@gmail.com
کانگو وائرس گزشتہ بیس سالوں سے پاکستان میں موجود ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے اکثر عیدالضحیٰ کی موقع پر جب جانوروں کی نقل و حمل بڑھ جاتی ہے تو اس وائرس کے کیسز میں اچانک اضافہ ہونے لگتا ہے کانگو وائرس ایک قسم کے کیڑے سے پھیلتا ہے جو مختلف جانوروں مثلا بھیڑ، بکریوں، گائے، بھینس اور اونٹ کی جلد میں پایا جاتا ہے اور یہ ان جانوروں کا خون چوستا ہے۔ یہی کیڑا کانگو وائرس کے پھیلا میں اہم کردار ادا کرتا ہے یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لے یا کیڑے سے متاثرہ جانور ذبح کرنے کے دوران کسی شخص کے ہاتھ میں کٹ لگ جائے تو یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے اور یوں کانگو وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے جو دیگر انسانوں کو بھی متاثر کرتا ہے کانگو وائرس کو چھوت کا مرض بھی خیال کیا جاتا ہے جو ایک انسان سے دوسرے انسان میں پھیلتا ہے اور یہ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے کانگو وائرس سے متاثر ہونے والا شخص ایک ہفتے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کانگو وائرس کا مریض تیز بخار میں مبتلا ہوتا ہے اور اسے سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، کمزوری، منہ میں چھالے اور آنکھوں میں سوجن ہوتی ہے تیز بخار سے انسانی جسم میں وائٹ سیلز کی تعداد میں تیزی سے کمی آتی ہے وائٹ سیلز کی کمی کی وجہ سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور جسم سے خون نکلنے لگتا ہے جو پھیپھڑوں، جگر اور گردے کو شدید متاثر کرتا ہے کانگو سے بچاؤ کے لیے جانوروں میں کیمیائی دوا کا اسپرے کیا جاتا ہے تاکہ کیڑوں کا خاتمہ ہو سکے۔
کانگو وائرس کے متاثرہ مریض سے ہاتھ ملانے سے بھی گریز کرنا چاہیے اور مریض کی عیادت کے بعد ہاتھوں کو اچھی طرح سے دھونا چاہیے کانگو وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے لمبی آستینوں والی قمیض کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ جانوروں پر موجود کیڑوں کے کاٹے سے محفوظ رہا جائے اور بچوں کامویشی منڈی میں ساتھ لے کر جانا بھی درست نہیں کیونکہ مویشی منڈی میں جانوروں کے فضلے سے اٹھنے والا تعفن بھی انسانی صحت کو متاثر کر تا ہے۔ اگر کسی کو کانگو وائرس لگ جائے تو اس سے انفیکشن کے بعد جسم سے خون نکلنا شروع ہوجاتا ہے۔ خون بہنے کے سبب ہی مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
یہ وائرس زیادہ تر افریقی اور جنوبی امریکا مشرقی یورپ ایشیاء اورمشرقی وسطی میں پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے کانگو سے متاثرہ مریض کا پتہ انہی علاقوں سے چلا اسی وجہ سے اس بیماری کو افریقی ممالک کی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے1944کو کریمیا میں سامنے آنے کی وجہ سے اس کا نام کریمین ہیمرج رکھا گیاماہرین صحت اور معالجین کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے ٹکس ایک قسم کا کیڑامختلف جانوروںمثلابھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں ٹکس جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستا رہتا ہے۔ اور یہ کیڑا ہی اس بیماری کے پھیلا میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لے یا پسو سے متاثرہ جانور ذبح کرتے ہوئے بے احتیاطی کی وجہ سے قصائی کے ہاتھ پر کٹ لگ جائے تو یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور یوں کانگو وائرس جانور سے انسانوں اور ایک انسان سے دوسرے جانور میں منتقل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے چھوت کا مرض بھی خیال کیا جاتا ہے اور یہ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
کانگو میں مبتلا ہونے والا مریض ایک ہفتہ کے اندر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے-مریض کی علامات میںکانگو وائرس کا مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسے سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالے، اورآنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے تیز بخار سے جسم میں وائٹ سیلز کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ متاثرہ مریض کے جسم سے خون نکلنے لگتا ہے اورکچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہوجاتے ہیں۔جبکہ جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یوں مریض موت کے منہ میں چلا جاتا ہے لیبارٹری ٹیسٹ کانگو کے ٹیسٹ نہایت اعلی کوالٹی بائیوسیفٹی لیب میں ہی ممکن ہو سکتے ہیں۔ اس مرض کے لیے تجویز کردہ مختلف ٹیسٹ درج ذیل ہو سکتے ہیںکانگو سے بچا ؤکی احتیاطی تدابیرمیںکانگو سے بچاؤ اور اس پر قابو پانا تھوڑ ا مشکل ہے کیوں کہ جانوروں میں اس کی علامات بظاہر نظر نہیں آتیں تاہم ان میں چیچڑیوں کو ختم کرنے کے لیے کیمیائی دوا کا اسپرے کیا جائے کانگو سے متاثرہ مریض سے ہاتھ نہ ملائیںمریض کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانے پہنیںمریض کی عیادت کے بعد ہاتھ اچھی طرح دھوئیںلمبی آستینوں والی قمیض پہنیںجانورمنڈی میں بچوں کوتفریحی کرانے کی غرض سے بھی نہ لے جایا جائے مویشی منڈی میں جانوروں کے فضلے کے اٹھنے والا تعفن بھی اس مرض میں مبتلا کر سکتا ہے کپڑوں اور جلد پر چیچڑیوں سے بچا کا لوشن لگائیںجانوروں کی خریداری کے لیے فل آستیں والے کپڑے پہن کر جائیں کیونکہ بیمار جانوروں کی کھال اورمنہ سے مختلف اقسام کے حشرت الارض چپکے ہوئے ہوتے ہیں جو انسان کوکاٹنے سے مختلف امراض میں مبتلا کرسکتے ہیںجانوروں کی نقل وحمل کرتے وقت دستانے اور دیگر حفاظتی لباس پہنیں، خصوصا مذبح خانوں ،قصائی اور گھر میں ذبیحہ کرنے والے افراد لازمی احتیاطی تدابیراختیار کریںمذبح میں جانوروں کے طبی معائنہ کے لیے ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم کا ہونا بہت ضروری ہے جو ایسے جانوروں کی نشان دہی کر سکیں مذبح خانوں کی صفائی کاخاص خیال رکھیں۔