ہفتہ‘ 22 شوال 1444ھ‘ 13 مئی 2023ء

جناح ہاﺅس کے تاریخی ورثہ کی تباہی ایک المیہ
یادش بخیر! چند سال قبل بلوچستان کے پ±رفضا مقام زیارت میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ریذیڈنسی جہاں بابائے قوم نے اپنے زندگی کے آخری ایام بسر کئے تھے۔ اس تاریخی مقام کو چند مسلح شر پسند عناصر نے رات کی تاریکی میں حملہ کر کے تباہ کر کے جلا دیا۔ اس تاریخی عمارت میں قائداعظم کے زیر استعمال درجنوں چیزیں، سامان، لباس، بستر وغیرہ جو تاریخی ورثے کے طور پر محفوظ تھے جلا دیا گیا۔ پوری قوم نے اس واقعہ میں ملوث شرپسند اور ملک دشمن عناصر کے خلاف سخت ایکشن کا مطالبہ کیا جو برحق اور حق بجانب تھا۔ اسی تناظر میں گزشتہ روز لاہور میں جناح ہاﺅس جو قائداعظم نے 1942ءمیں خریدا تھا۔ یہ ان کی لاہور میں رہائش گاہ تھی۔ بعد ازاں کور کمانڈر ہاﺅس کہلایا۔ یہاں بھی بابائے قوم کی متعدد اشیا جن میں ان کی تلوار، پیانو، رائٹنگ ٹیبل اور نایاب تصاویر و دیگر دستاویزات موجود تھیں، کو گزشتہ دنوں شرپسند مظاہرین کہہ لیں یا بلوائیوں نے جس بے دردی سے لوٹا اور جلایا یہ بھی اتنا ہی قابل نفرت و قابل مذمت فعل ہے‘ جتنا زیارت ریذیڈنسی کو جلانا تھا۔ اگر وہ دہشت گردی تھی تو یہ بھی دہشت گردی ہے۔ یہ کیا کہ ایک جگہ جو کام ب±را ہو وہ دوسری جگہ اچھا سمجھا جائے۔ یہ دو رنگی پالیسی ملک کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ قومی تاریخی املاک کو اس طرح لوٹنا، نذر آتش کرنا اور اس پر فخر کا اظہار کرنا فتح کے نعرے لگانا اگر بلوچستان میں دہشت گردی ہے تو لاہور میں بھی یہ دہشت گردی ہی کہلائے گا۔ ایسے عناصر کے لئے وہی سزا ہونی چاہئے جو بلوچستان کے دہشت گردوں کے لئے ہے۔ایک ملک میں دو قانون نہیں چل سکتے۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک کریں تاکہ آئندہ کوئی اس طرح ملکی وقار کی توہین نہ کرے۔
٭٭٭٭٭
درختوں کو مظاہرین کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچائیں!
ایک طرف ہم ماحولیات کو تباہی سے بچانے کے لئے بلند و بانگ دعوے کرتے پھرتے ہیں ہر طرح کے اقدامات کر کے ماحول کو تباہی سے بچانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں مگر اس تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجود دیکھ لیں نہایت بے دردی سے شجر کاری سے زیادہ شجر بربادی ہمارے ہاں جاری ہے۔ جنگلات میں ٹمبر مافیا نے قیامت ڈھا رکھی ہے۔ اربوں روپے کی لکڑی چوری ہوتی ہے، سرسبز درخت کاٹے جا رہے ہیں، سب کمیشن لے کر اس طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ شہروں میں رہائشی سوسائٹیاں بے دریغ درخت کاٹ کر مکانات بنا رہی ہیں۔ باقی رہی سہی کسر تعمیراتی و ترقیاتی کاموں کے نام پر شہروں اور دیہات میں لگے قدیم بڑے بڑے درخت کاٹ کر پورے ملک کو ٹنڈ منڈ بنایا جا رہا ہے۔ کوئی روکنے، ٹوکنے اور پوچھنے والا نہیں۔ عدالتوں نے درخت کاٹنے پر پابندی لگا رکھی ہے مگر کوئی اس پابندی پر عمل نہیں کرتا۔ اِدھر کسی پر مقدمہ کریں ا±دھر وہ انہی عدالتوں سے سٹے آرڈر لے کر اپنا دھندا جاری رکھتا ہے۔ باقی جو کچھ بچا اب نئے سیاسی ہنگامہ آرائی کرنے والوں نے تباہ کر دیا۔ یہ نیا انداز ہے تباہی کا۔ پہلے ٹریفک سگنل، سٹریٹس لائٹس ہنگاموں میں ٹوٹتی تھیں اب مظاہرین نے اپنی دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے سڑکوں کے کنارے لگے درختوں کو کاٹنا، جلانا شروع کردیا ہے۔ یہ کونسا احتجاجی رنگ ہے پہلے ہی ہمارے شہروں سے ہریالی،سبزہ و شادابی رخصت ہوچکی ہے اس ماحول دشمن حرکت پر قانون سخت ایکشن لے اور جو درخت جلاتا گراتا یا کاٹتا پایا جائے اس سے فی درخت ایک لاکھ روپے جرمانہ وصول کیا جائے تاکہ وہاں نئے درخت لگائے جا سکیں۔ حد ہو گئی جہالت کی دنیا درخت لگاتی ہے ماحول بچاتی ہے ہم درخت کے ساتھ ماحول کو بھی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کی اٹل حمایت جاری رکھے گی: امریکہ
 یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ اس کے باوجود اپنی محبوب ناجائز ریاست کی سرپرستی جاری رکھنے کا اعلان کر کے دنیا کو بتایاجا رہا ہے کہ وہ عربوں کی تمام تر امریکہ دوستی کے باوجود مشرقی وسطیٰ کے سینے میں پیوست یہ خنجر نہیں نکالے گا۔ دنیا جانتی ہے کہ اگر اسرائیل کے ناپاک وجود سے امریکہ کا دست شفقت اٹھ جائے تو فلسطینی خود اس م±ردے کو دفنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر کیا کیا جائے کہ عرب ممالک تمام حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود امریکی شہ پر اسرائیل کو دھڑا دھڑ تسلیم بھی کر رہے ہیں اور اس سے تجارتی اور سفارتی تعلقات بھی بڑھا رہے ہیں۔ اس پر فلسطینی آور مسلم امہ خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ عرب ہم سے زیادہ بہتر عربی جانتے ہیں۔ قرآن و حدیث پڑھنے اور سمجھنے کا شعور ان میں میں ہم سے بہت زیادہ ہے۔ اس کے باوجود وہ یہود و نصاریٰ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے والے احکامات فراموش کر چکے ہیں۔ تعلقات بہتر بنانا یا رکھنا اور بات ہے ہاں اگر وہ امن سے رہتے ہیں تو اچھے پڑوسی بن کر رہنے میں کوئی حرج نہیں مگر اسرائیل کے ہاتھ تو فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور وہ روزانہ فلسطینیوں کو مار رہا ہے۔ کیا فلسطینی عرب مسلمان نہیں۔ کیا ان کا خون ناحق یونہی بہنے دیا جائے اور اس کا حساب اسرائیل سے طلب نہ کیا جائے۔ امریکہ یہی چاہتا ہے۔ عرب و مسلم ممالک خاموش رہیں۔ اسرائیل جو کرتا ہے کرنے دیں اور ہمارے حکمران یہی کر رہے ہیں۔ شاید امریکی تابعداری انہیں بھلی معلوم ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭
تیل کی قیمت میں کمی کےلئے سستا تیل جہاں سے ملے ضرور خریدیں
روس سے سستے تیل کی خریداری اس وقت اگر صاف و شفاف طریقے سے کمیشن کھائے بغیر کی جائے تو ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی سرپٹ اوپر چڑھتی قیمتوں کو بریک لگ سکتی ہے۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک اس وقت روس سے سستے داموں تیل خرید رہے ہیں۔ ہماری حکومت بھی طویل المدتی معاہدہ کر کے تیل فروخت کرنے والی بین الاقوامی کمپنیوں کی اجارہ داری سے جان چھڑائے جو اندھا دھند بھاری منافع کما رہی ہیں۔ تیل کی قیمت طے کرنے والے ادارے کی د±کھتی رگ پر بھی انگوٹھا نہیں بلکہ گھٹنا رکھا جائے جو عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کے باوجود ملٹی نیشنل کمپنیوں سے بھاری کمیشن وصول کر کے سستے تیل کے ثمرات عوام تک پہنچنے نہیں دیتے۔ اس وقت عالمی ماحول بھی ایسا ہے کہ امریکہ نے بھی اپنی ڈارلنگ بھارت کو خوش کرنے کےلئے اس کے روس کے ساتھ تیل کے بھاری بھرکم معاہدوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ملک روس سے سستا تیل خریدنا چاہتا ہے خریدے ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا تو ہمیں کاہے کا ڈر ‘ہم کیوں نہ روسی تیل خریدیں۔ اس وقت عوام سب سے زیادہ مہنگائی سے پریشان ہیں ، پٹرول کی قیمت سے تو نکوں نک آئے ہوئے ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ عوام کو مزید پریشان کیا جائے۔ تیل کی خریداری اگر ایران سے بھی سستے داموں ممکن ہو تو پھر ”ہاتھ کنگن کو آرسی کیا“ اس سے جلد تیل حاصل کیا جائے۔ ایران سب سے قریبی پڑوسی ہے ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں بھی مناسب کمی ہوگی اگر تیل کی پائپ لائن بچھا دی جائے تو سونے پر سہاگہ ہو سکتا ہے مگر ہمارے کمیشن خور مافیاز کیا ایسا ہونے دیں گے۔ ایران تو کب سے گیس فراہمی کے لئے اپنے حصہ کا کام مکمل کر چکا ہے مگر ہم ابی تک جرمانے سے بچنے کے لئے معافیاں طلب کرتے پھرتے ہیں مگر لائن مکمل کر کے گیس جو ارزاں ترین نرخوں پہ مل رہی ہے نہیں لے رہے۔
٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن