پولیس کا ہے حق

اس نے سڑک کنارے سے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔ اس پر نظر پڑتے ہی سوچے بغیر گاڑی کی بریک دب گئی۔ ساتھ بیٹھتے ہی اس نے گاڑی روکنے پر گرم جوشی کے ساتھ شکریہ ادا کیا۔ رسمی تعارف سے معلوم ہوا کہ وہ ملک کے شہر بے مثال کی مثالی پولیس کا اہلکار ہے۔ اس نے بتایا کہ اسے اسی راستے میں ایک ناکے تک جانا ہے جہاں اس کی رات کی ڈیوٹی ہے۔ بات چیت کے دوران ہاتھ کی انگلی پر بندھی پٹی کے بارے میں دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ایک بڑے سیاسی لیڈر کی گرفتاری کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی میں دوران ڈیوٹی یہ چوٹ آگئی۔ اس نے بتایا کہ ان جھڑپوں میں اس کے کئی دیگر ساتھی زخمی ہوئے، افسران تک نے زخم کھائے۔ اس نے میڈیا کی ان کی جانب عدم توجہی کا شکوہ کرتے ہوئے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنا شروع کردیے۔ اس کے گھر میں بوڑھی بیمار ماں، بیوی اور بیٹی تھی۔ اسے اتنا وقت نہ مل سکا کہ والدہ کے لیے دوائیں لے جاسکے۔ایک جگہ سے ڈیوٹی ختم تو اگلی کی تیاری شروع۔
انھی باتوں میں اس کی منزل آگئی جہاں مزید تین اس کے ساتھی پہلے سے موجود تھے۔ اس نے ناکے پر اس کے ساتھیوں کی جانب سے بنائی جانے والی چائے کی آفر کی تو انکار کو دل نہ چاہا۔ اس دوران اس کے دوسرے ساتھیوں سے گپ شپ ہوئی، ان کے معاشی اور گھریلو مسئلے بھی کچھ اسی قسم کے تھے لیکن ان کا اس سے بڑا مسئلہ کوئی اور تھا جس کا تعلق محکمے سے زیادہ عوام سے تھا۔ اس عوام سے جن کے لیے وہ اس جگہ موجود تھے جن کا تحفظ ہی ان کی ذمہ داری تھی۔ قانون میں کسی بھی یونیفام فورس یا محکمے کے لیے کچھ الگ پروٹوکولز ہیں،چونکہ یونیفارم کسی محکمے کی پہچان ہوتا ہے اس لیے اس کا احترام بھی لازم قراردیا گیا ہے۔ پولیس وہ محکمہ ہے جس کا براہ راست اور سب سے قریبی تعلق عوام کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اس تعلق میں اعتماد کا شدید ترین فقدان ہمیشہ سے رہا ہے۔ ان پولیس اہلکاروں کے مطابق اس کا سب سے بڑا ذمہ دار میڈیا ہے جو ہمیشہ پولیس کا منفی امیج دکھاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے اور ہر محکمے میں بری شہرت کے حامل لوگ ہوتے ہیں تو پھر پولیس ہی بدنام کیوں؟
کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ ناکوں پردن کی گرمی اور سرد راتوں میں بارہ بارہ گھنٹے کھڑے ہوکر عوام کی حفاظت یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی احتجاج ہو، ہنگامہ یا ہنگامی صورتحال، سب سے پہلے ہماری چھٹیاں منسوخ ہوتی ہیں، سب سے پہلا پتھر، سب سے پہلا ڈنڈا ہم کھاتے ہیں۔ سب سے پہلی گولی اور سب سے پہلی گالی بھی ہمیں سہنا پڑتی ہے۔ ہمارے رات دن چھت تلے کم اور کھلے آسمان تلے زیادہ گزرتے ہیں، لوگ نمازیں ادا کرتے ہیں، ہم باہر ان کی حفاظت، لوگ عیدیں کرتے ہیں ہم ان کا تحفظ۔ اکثر تو کھانے بھی سڑکوں پر ہی کھاتے ہیں اور افطاریاں بھی۔ لیکن پھر بھی لوگ ہمیں برا ہی سمجھتے اور کہتے ہیں۔ مسائل تو اس ملک میں سبھی کے ساتھ ہیں لیکن ایسا تو کسی کے ساتھ نہیں ہوتا کہ آپ جن کی زندگی اچھی بنانے کے لیے اپنی زندگیاں مشکل بنائے رکھیں وہی آپ کو برا سمجھ رہے ہوں۔
اگرتمام شعبوں میں اچھے برے لوگ ہیں تو ہم میں بھی ہیں۔ ہم بھی تو اسی معاشرے اور ملک کی مخلوق ہیں تو ویسے ہی ہوں گے نا جیسے باقی سب لیکن ہمارا گلہ اور افسوس یہ ہے کہ ہمیں باقیوں سے برا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی باتوں میں جذبات تھے لیکن وہ باتیں جذباتی بالکل نہیں تھیں۔ یہ یقینا چند اہلکاروں یا کسی مخصوص رینک کی شکایت نہیں، اسلام آباد پولیس کے تحت کی جانے والی ایک سکیورٹی پروفائلنگ رپورٹ میں حیران کن انکشافات ہوئے۔ اس رپورٹ کے مطابق جب پولیس اہلکاروں کا نفسیاتی معائنہ کیا گیا تو اکثریت کی ذہنی حالت کسی بھی طرح تسلی بخش نہیں تھی۔ اکثر اہلکار نا امیدی، ڈپریشن، پریشانی، احساس کمتری اور جارحیت جیسے مسائل کا شکار پائے گئے۔ جو پولیس کی حساس ڈیوٹی کے حوالے سے انتہائی تشویشناک ہیں۔ ان مسائل کی وجہ صرف معاشی امور یا سخت فرائض ہی نہیں بلکہ عوام کا منفی رویہ ایسے نفسیاتی مسائل کی بڑی وجہ بنا۔ وسائل کی کمی پوری کرنا اور معاشی مسائل حل کرنا حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن عزت دینا تو عوام کے ہاتھ میں ہے۔ پولیس کا فرض تو ہے ہی مدد سب کی لیکن ہم سب کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اس کی قدر کی جائے ان کے فرض کے بدلے میں اتنا تو ان کا حق بنتا ہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن