نام لینے کی ضرورت نہیں۔ روایتی اور سوشل میڈیا کے لیکن چند معروف نام جن میں سے اکثر کے ساتھ میرا دوستانہ تعلق بھی ہے حیران ہوئے چلے جارہے ہیں۔ انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ عموماً نیٹ فلیکس پر مشہور ہوئی فلموں سے لاتعلق مجھ جیسے لاہوری بھی سنجے لیلا بھنسالی کی بنائی ’ہیرا منڈی‘ دیکھنے کو مجبور کیوں ہوئے۔ فلم دیکھ ہی لی تھی تو اس کے بارے میں اتنے چراغ پا کیوں ہیں۔ مذکورہ سوال سنجیدگی سے اٹھانے کے بجائے اگرچہ حقیقی لطف یہ سوچتے ہوئے اٹھایا جارہا ہے کہ ’لہوریوں‘ کو ’اپنی ہیرا منڈی‘ کی ’شناخت مسخ‘ ہوجانے کا دکھ کیوں ہے۔ اپنے تئیں ’تہذیب، ثقافت اور مثبت سماجی روایات‘ کے نمائندہ ہوئے تبصرہ نگاروں کو تو ایسی فلموں سے لاتعلق رہنا چاہیے۔
مزید پڑھنے سے قبل اعتراف کرتا ہوں کہ روایتی اخبارات کے لیے باقاعدگی سے کالم لکھنے والوں میں سے غالباً میں پہلا شخص تھا جس نے ’نوائے وقت‘ کے لیے اس فلم کے بارے میں لکھاتھا۔ ’نوائے وقت‘ اپنی تاریخی شناخت کے حوالے سے قدامت پرست روایات کا نمائندہ تصور ہوتا ہے۔ نیٹ فلیکس پر مشہور ہوئی فلمیں یہاں زیر بحث نہیں آتیں۔ میں نے مگر سنجے لیلا بھنسالی کی فلم پر لکھنے کا فیصلہ کیا تو مقصد اس کا لاہور کی ’ہیرا منڈی‘ کی غلط وبے بنیاد نمائندگی پر واویلا مچانا ہرگز نہیں تھا۔ قارئین سے بلکہ درخواست کی تھی کہ اس فلم کو تاریخی اور موجودہ حقائق کے تناظر میں جانچنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو فلم یا ڈرامہ خود کو ’تاریخی‘ کہلوانے کی کوشش کرتا ہے عموماً ’تاریخ‘ ہی کو تقریباً مسخ کردیتا ہے۔ اس تناظر میں امتیاز علی تاج کے لکھے اس ڈرامے کی مثال بھی دی تھی جو انھوں نے اکبر بادشاہ کے چہیتے فرزند سلیم کی انار کلی کے نام سے مشہور ہوئی ایک کنیز کے ساتھ عشق کے بارے میں لکھا تھا۔
تاریخ کو نہایت لگن سے کنگھالنے کے بعد کئی محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ اکبر کے دربار میں انار کلی نام کی کنیز ہی موجود نہیں تھی۔ اس کے بارے میں لکھا ڈرامہ اور مشہور ہوئی باتیں بے بنیاد ہیں۔ بازار میں پھیلی گپ شپ کی طرح ہیں۔ اس کے باوجود ڈرامہ انار کلی ریڈیو پاکستان کا قابل فخر کلاسیک اور ورثہ شمار ہوتا ہے۔ آج کی خبر نہیں۔ ہر مہینے کی آخری اتوار مگر ریڈیو پاکستان لاہور کے مرکزی اسٹوڈیو میں سو کے قریب افراد امتحان دینے والے بچوں کی طرح گھبرائے بیٹھے ہوتے تھے۔ وہ ریڈیو ڈراموں میں حصہ لینے کے خواہش مند ہوا کرتے۔ یہ طے کرنا مگر لازمی تھا کہ ان کی آواز ،لہجہ اور طرز بیاں ڈراموں کے لیے مناسب ہے یا نہیں۔ اسے جانچنے کو جو امتحان ہوتا اسے ’آڈیشن‘ کہتے تھے۔ قطار میں بیٹھے امیدواروں کے ہاتھ میں اسٹوڈیوز میں داخل ہونے سے قبل اس کے دروازے کے قریب رکھی میز پر ترتیب سے سجائے ڈراموں کے مسودوں میں سے ایک یا دو صفحوں پر مشتمل حصے تھمادیے جاتے تھے۔ اپنی باری آنے پر امیدوار ان صفحات میں سے ایک دو پیرے پڑھ کر فارغ کردیا جاتا۔
میں سکول سے ہفتے میں کم از کم تین نہیں تو دو بار ریڈیو پاکستان کے سکول براڈ کاسٹ کے پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے جایا کرتاتھا۔ میرے لیے ریڈیو پاکستان لاہور گھر کی طرح تھا اور وہاں کئی سینئر پروڈیوسروں اور اداکاروں کا چہیتا بھی۔
اتوار کے دن آڈیشن کے لیے جمع ہوئے افراد کی گھبراہٹ اور اضطراب مجھے خود پسندی والا حظ پہنچاتے تھے۔ ناشتے کے بعد لہٰذا گھر سے پیدل چل کر ریڈیو پاکستان جاکر اس کے اسٹوڈیو میں چلاجاتا جہاں ڈراموں میں حصہ لینے کے خواہش مند جمع ہوتے۔ چند دن گزرنے کے بعد مجھے دریافت ہوا کہ آڈیشن دینے والوں کی اکثریت کو ڈرامہ انکار کلی ہی کے حصے تھمائے جاتے تھے۔ جو حصہ سب سے مقبول تھا اس میں اکبر بادشاہ شاہی قلعے کی کھڑکی کے قریب بیٹھا دریائے راوی کو دیکھتے ہوئے خود کلامی میں مصروف ہے۔ اس کی خود کلامی کا آغاز ’اے راوی کے ملاح تو کتنا…‘ دلشادوغیرہ کے اظہار سے ہوتا۔ جس مکالمے کا میں ذکر کررہا ہوں اس کا حقیقی معنوں میں لطف اٹھانا ہوتویوٹیوب پر موجود ایک کلپ کو ڈھونڈ کر دیکھ لیں۔ کسی دور میں بے تحاشا مقبول رہے پاکستان ٹی وی کے ’ضیاء محی الدین شو‘ میں حصہ لینے کے لیے ریڈیو کے ایک مشہور نام اور بانیوں میں شمار ہوتے منتظم زیڈ اے بخاری تشریف لائے تھے۔ ضیاء صاحب نے ان سے کسی ڈرامے کی چند سطریں بولنے کی فرمائش کی اور بخاری صاحب نے راوی کے ملاح والی لائن ادا کرتے ہوئے بے تحاشا داد وصول کرلی۔
یقین مانیں ان دنوں سکول کا طالب علم ہوتے ہوئے بھی میں اس بارے میں بہت حیران ہوتا کہ ریڈیو ڈرامے کے لیے لکھی زبان اتنی ثقیل کیوں ہے۔ اس کا لہجہ اتنا بلند آہنگ اور مصنوعی رعب جھاڑتا کیوں سنائی دیتا ہے۔ اشفاق احمد صاحب ڈرامے کی دنیا کا مشہور ترین نام ہیں۔ انھوں نے مصنوعی سنائی دیتی روایتوں کو چھوڑتے ہوئے ’تلقین شاہ‘ نامی ایک سلسلہ تیار کیا تھا۔ وہ اس میں جالندھری لہجے والی پنجابی میں اردو بولا کرتے تھے۔ منافقت کی مجسم علامت ہوتے ہوئے اپنے سادہ ونیک دل خادم ’ہدایت اللہ‘ کوبے عقل ہونے کے طعنے دیتے ہوئے ہمیں مسحور کیے رکھتے۔
اشفاق احمد کا ’تلقین شاہ‘ میری دانست میں اپنے دور کی روایت شکن ہی نہیں بلکہ ایک حوالے سے ’انقلابی‘ کاوش بھی تھی جو ہمارے معاشرے پر حاوی دوغلے پن کو نہایت معصومیت سے ’مخولیہ‘ انداز میں بیان کردیتی تھی۔ مجھے شبہ ہے کہ بعدازاں کمال احمد رضوی نے پی ٹی وی کے لیے ’الف اور نون‘ کے عنوان سے جو ڈرامائی سلسلہ لکھا تھا وہ ’تلقین شاہ‘ سے متاثر ہوکر لکھا گیا تھا۔ کمال احمد رضوی مذکورہ ڈرامے میں بطور ’الن‘ لوگوں کو جھانسا دے کر جلد از جلد امیر بننے کے خبط میں مبتلا نظر آتے۔ مرحوم رفیع خاور اس سیریز میں معصوم ’ننھا‘ بنے تلقین شاہ کے وفادار ونیک دل ملازم-ہدایت اللہ- کا عکس محسوس ہوتے۔
انسانی دماغ بھی عجیب ہے۔ کالم کا ا ٓغاز اس موضوع پر غور کرنے سے ہوا تھا کہ ’غیر لہوری‘ دانشور ولکھاری ’لہوریوں‘ کے دلوں میں اُبلے اس غصے سے لطف اندوز کیوں ہورہے ہیں جو انھیں سنجے لیلا بھنسالی کی بنائی ’ہیرامنڈی‘ کی وجہ سے محسوس ہورہا ہے۔ مذکورہ موضوع تک محدود رہنے کے بجائے میں ’تاریخی‘ ڈراموں اور فلموں کی حقیقت بیان کرنے کی جانب بھٹک گیا۔اصل موضوع سے بھٹک کر بھی لیکن ’تلقین شاہ‘ یادرکھا۔ اشفاق احمد مرحوم کے دریافت کردہ اس کردار کی بدولت ہمارے دلوں کا دوغلاپن اور منافقت ہمیشہ آشکار رہے گی۔ اسے بے نقاب کرنا ہی ان دنوں کے لکھنے والے کا اصل فریضہ ہے۔
نیٹ فلیکس کی ’ہیرا منڈی‘ اور اشفاق احمد کا ’تلقین شاہ‘
May 13, 2024