آبی وسائل محفوظ کرنے کی اشد ضرورت

 پاکستان میں آبی وسائل 140ملین ایکڑ فٹ سے زائد شمار کئے جاتے ہیں۔ اس میں سے صرف 102 ملین ایکڑ فٹ تک ہم اسے نہری نظام کے ذریعے حاصل کرتے ہیں جبکہ بقایا پانی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے سمندر میں ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر اس ضائع ہونے والے پانی کو محفوظ کر لیا جائے تو صوبوں میں پانی کی تقسیم کے فارمولا کے مطابق سندھ کو تقریبا 15 ، پنجاب کو 11 ، خیبر پی کے کو6.28 اور بلوچستان کو بھی 4.84 ملین ایکڑ زائد پانی ملے گا۔ ایک ملین ایکڑ فٹ پانی سے باآسانی دو ارب ڈالر سالانہ کی معیشت حاصل کی جا سکتی ہے، اس طرح بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پانی کے وسائل کو محفوظ بنا کر ترقی کے اہداف کس طرح حاصل کئے جا سکتے ہیں؟ہمیں اپنے آبی وسائل کو استعمال کرنے کے طریقہ کار کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان اور مصر کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ہم مصر کے مقابلہ میں 5 گنا سے زائد پانی استعمال کر رہے ہیں۔ یہی نہیں سیلابی پانی کو محفوظ نہ کرنے کے نتیجہ میں ہر تیسرے سال کی اوسط سے سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ 2010 کے سیلاب کے دنوںمیں پاکستان میں 1781 معصوم افراد موت کا شکار ہوئے اور 43 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ دو سال پہلے بھی پاکستان 30 سے 40 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کر چکا ہے۔ اگر ا?بی وسائل پر کماحقہ کام کیا جائے تو پاکستان پر کل قرضہ اتارنا انتہائی معمولی کام ہوگا۔
 پانی کے وسائل کا بغور جائزہ لیا جائے تو 1975-2000 اور 2001-2020 کے اعدادوشمار (واپڈا) کے مطابق دریائے سندھ میں تقریباً 8.9%، جہلم میں 16.5% اور چناب میں 17.7% کمی ہو چکی ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس حوالے سے صوبوں میں اری گیشن کے محکموں کے علاوہ انڈس واٹر کمشنر پاکستان کو انتہائی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ پانی میں کمی کیوں ہوئی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بھارت پانی چوری کا مرتکب ہو رہا ہے؟ ہم بھارت کے موجودہ وزیراعظم کی بات کبھی نظرانداز نہیں کر سکتے جس میں انھوں نے واضح پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’خون اور پانی ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔ پاکستان بننے کے بعد بھی جس طرح پاکستان کی طرف آنے والے پانی کو روکا گیا اور جس طرح سندھ طاس معاہدہ کے بعد بھی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، اسے نظر انداز کرنا پاکستان کے وسائل کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔
 منگلا، تربیلا اور چشمہ میں بننے والے آبی ذخائر 18.81 ملین ایکڑ فٹ (MAF) کے تھے جو 29.24% سے زائد کمی کے بعد اس وقت 13.27MAF رہ چکے ہیں۔ تربیلا ڈیم میں جمع ہونے والے پانی میں 4 ملین ایکڑ فٹ کی کمی ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے صوبہ سندھ اور بلوچستان کو خریف کی بوائی کیلئے پانی کی دستیابی ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔ اگر یہی حال رہا تو مستقبل میں ان دونوں صوبوں میں ربیع کے موسم کے آخری پانیوں کیلئے بھی کمی واقع ہو جائے گی۔ اس کا حل صرف اور صرف یہی ہے کہ دریائے سندھ پر فوری طور پر کوئی ڈیم بنا دیا جائے۔ 
 یہاں ایک بات کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے کہ ہر صوبہ پانی کی اہمیت سے واقف ہے۔ وہ اپنی بہتری کیلئے زیادہ سے زیادہ پانی کے حصول کا متلاشی نظر آتا ہے۔ سندھ میںتھر کا وسیع میدان اپنی پیاس بجھانے کیلئے پانی کا منتظر ہے تو سمندر بردی کا شکار سندھ کا ساحل بھی مسائل میں جکڑا دکھائی دیتا ہے۔ بلوچستان پٹ فیڈر کے وسیع خطہ کیلئے بھی پانی درکار ہے تو خیبر پی کے میں جنوبی پانچ اضلاع کی 30 لاکھ ایکڑ سے زائد بنجر اراضی پانی چاہتی ہے۔ پنجاب میں بھی تھل اور چولستان کے علاوہ ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کے علاقے پانی کے بغیر آباد نہیں ہو سکتے۔ ان تمام امور کیلئے ضائع ہونے والے فاضل پانی کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے لیکن آپس کی نااتفاقی کی وجہ سے پانی کا ضیاع جاری ہے۔ ایک چھوٹے سے کھالے پر دو کسان بھی آپس میں پانی کے مسئلہ پر الجھ جاتے ہیں کہ تم نے ایک منٹ زائد پانی لے لیا۔ صوبوں کا مسئلہ تو بہت بڑا ہے۔ کوئی ایسا طریقہ کار وضع ہونا چاہیے تھا کہ صوبوں میں پا نی کی تقسیم کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہو اور ہر صوبہ خودمختار طریقہ سے اپنا پانی حاصل کرے۔
 سندھ سے برملا آوازیں آتی ہیں کہ جب اسے پانی درکار ہوتا ہے تو سندھ کے پہلے مقام گدو سے 340 میل دور چشمہ سے پانی ریلیز کیا جاتا ہے جو گدو تک پہنچنے میں 7 دن لگا دیتا ہے۔ اس 340 میل میں بے شمار ٹیوب ویل دریا سے پانی لیتے ہیں۔ اس طرح اسے پانی پورا نہیں ملتا، اس بات کے پیش نظر وہ بلوچستان جانے والی پٹ فیڈر کینال کا پانی بھی کم مہیا کرتا ہے۔ اس کا واحد حل ہے کہ کوٹ مٹھن کے مقام پر بیراج تعمیر کر دیا جائے۔ جب بھی سندھ پانی کا مطالبہ کرے، کوٹ مٹھن سے پانی ریلیز کیا جائے تو گدو جھیل میں 8/10 گھنٹوں میں باآسانی پہنچ جائیگا۔ اسی طرح پٹ فیڈر کینال کو بھی گدو کے بجائے براہِ راست کوٹ مٹھن سے منسلک کر دیا جائے۔ اس طرح پانی کی تقسیم میں شفافیت لا کر صوبوں کے درمیان پانی کے اختلافات کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ صوبہ خیبر پی کے کے جنوبی پانچ اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں، لکی مروت اور کرک پانی کی شدید کمی کا شکار ہیں، انہیں صرف کالاباغ ڈیم بننے کی صورت میں ہی پانی مل سکتا ہے۔ اسکے علاوہ سندھ کے ساحلی علاقوں کو سمندر بردی سے بچانے کیلئے دریائے سندھ پر سندھ بیراج کو فوری تعمیر کرنا ہوگا جس سے ساحلی علاقوں کو صاف پانی مہیا ہوگا بلکہ کراچی کو بھی ضرورت کے مطابق پانی مل سکتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی سمندر پر پشتہ (Dyke) بنا کر سمندر بردی سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ اس طرح اس قیمتی ساحلی علاقوں سے اربوں ڈالر سالانہ کا جھینگا سندھ ہی نہیں پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے ایک نیک شگون ہوگا۔
 یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے پانی کو کس طرح محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ تمام آبی ماہرین متفق ہیں کہ سیلابی پانی کا مکمل دبائو تربیلا سے نیچے ہے۔ اس سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے والا واحد مقام کالاباغ ہے۔ کالاباغ کے مقام پر ڈیم بنا کر نہ صرف سیلابی پانی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے بلکہ اس پانی کو ان علاقوں تک بھی پہنچایا جا سکتا ہے جہاں پانی کی شدید قلت ہے۔ سندھ طاس معاہدہ میں کالاباغ ڈیم کی منظوری عمل میں آئی تھی، اس کے ساتھ ہی کالاباغ جہلم لنک بھی بننی تھی۔ کالاباغ ڈیم کے بجائے تربیلا ڈیم بننے کی صورت میں کالاباغ جہلم لنک کے بجائے چشمہ لنک بنا دی گئی۔ کالاباغ جہلم لنک کے ذریعے موسم برسات میں دریائے سندھ کا فاضل پانی دریائے جہلم میں رسول کے مقام پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح منگلا ڈیم جو ریزنگ کے بعد 4/5 سال میں بمشکل بھرتا ہے۔ ہر سال منگلا جھیل بھر سکے گی بلکہ 2.5MAF کا روہتاس ڈیم بھی بنا کر فاضل پانی سٹور کیا جا سکتا ہے۔ 
منگلا سے مرالہ (چناب) اور مرالہ سے دریائے راوی اور ستلج کے گزرگاہوں سے گزار کر ان وادیوں میں سندھ طاس معاہدہ کی وجہ سے ہونے والے مسائل سے نبٹا جا سکتا ہے بلکہ ان علاقوں کی ماحولیات کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں ہیڈسلیمانکی(ستلج) سے نہر نکال کر صدیوں پرانے دریائے ہاکڑا کی گزرگاہ کو بھی پانی مہیا کرکے تھر کی 50 لاکھ اور چولستان کی 20لاکھ ایکڑ سے زائد بنجر اراضی کو بھی آبادکرکے ان کے قدیم باشندوں کو خوبصورت زندگی کا تحفہ مل سکتا ہے۔ اسکے علاوہ تربیلا سے اکھوڑی لنک کینال کے ذریعے مکمل سیلابی پانی کو کنٹرول کرکے کام میں لایا جا سکتاہے۔
 ماحولیاتی تبدیلی کے موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے جنوب میں بارشوں میں انتہائی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ اضافی بارشیں بلوچستان میں زندگی کو مشکل بنا رہی ہیں۔ اسکے ساتھ ہی ہمیں یہ پیغام بھی دے رہی ہیں کہ بلوچستان میں 17 دریائوں پر فوری کام کرکے اس پانی کو Action /Check Dam Delay  کے اصولوں پر جمع کیا جائے۔ اس طرح بلوچستان میں زندگی کا آئینہ مکمل طور پر تبدیل ہو جائیگا۔ چند سالوں میں وہاں کے خشک پہاڑ ہریالی کے مانند نظر آنا شروع ہو جائینگے۔ اس طرح نہ صرف پاکستان کے چاروں صوبوں کی دو کروڑ ایکڑ سے زائد بنجر رقبہ کو آباد کیا جا سکتا ہے بلکہ یہاں کی ماحولیات میں خوشگوار اضافہ بھی ہو جائے گا۔ 

 یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ پاکستان میں پانی کے وسائل کو نظر انداز کرکے صاحب اقتدار قوتوں نے پاکستان کے ساتھ وفا نہیں کی۔ ذرائع ا?ب کو نظرانداز کرکے وطن عزیز کو قرضے کے جال میں بری طرح پھنسا دیا ہے۔ اگر ا?ج بھی ا?بی و قدرتی وسائل سے استفادہ کیا جائے تو صرف ایک عشرہ میں پاکستان دنیا کے تین چار بڑی معاشی قوتوں میں شمار ہو سکتا ہے۔ 
 عام پاکستانیوں کو ہی نہیں باشعور طبقہ میں بھی یہ ا?وازیں سنائی دیتی ہیں کہ چونکہ کالاباغ ڈیم پر صوبوں میں نااتفاقی ہے، اس لئے ا?بی وسائل پر کام نہیں ہو سکا۔ ان باشعور طبقہ کے نزدیک کالاباغ ڈیم سے پاکستان زیادہ ضروری ہے اور یہیں یہ باشعور طبقہ بھی انتہائی درجہ کی غلطی کر گیا۔ اسی ا?ڑ میں ملک دشمنوں نے اپنے عیاری کا جال پھینکا اور ہم اس میں پھنستے چلے گئے۔ اگر بات صرف کالاباغ ڈیم کی تھی تو بقایا ا?بی وسائل کو کیوں موخر رکھا گیا؟ اگر کالاباغ ڈیم کے علاوہ دیگر منصوبوں پر کام جاری رہتا تو ا?ج کالاباغ ڈیم سے بھی سب متفق ہو چکے ہوتے۔ چلیں اسے بھی چھوڑیں! تربیلا ڈیم پراجیکٹ میں تو کسی صوبہ کی کوئی مخالفت نہیں۔تربیلا جھیل 1975 میں مکمل ہو چکی تھی لیکن تربیلا ڈیم پراجیکٹ ا?ج تک نامکمل ہے۔ تربیلا ڈیم پراجیکٹ میں جھیل کے علاوہ 5 ا?بی سرنگیں بھی تھیں۔ پہلی سرنگ پر 700اور دوسری سرنگ پر 1050 میگاواٹ کے جنریٹر 1984 تک نصب ہو چکے تھے۔ 1985 میں تیسری ٹنل پر 1728 میگاواٹ کے جنریٹر نصب کرنے کی بات چلی تو ورلڈ بینک نے مشورہ دیا کہ اگر ا?پ پرائیویٹ سیکٹر میں بجلی گھر بنائیں گے تو ہم ا?پ کو قرضہ دیں گے۔ اس وقت کے چیئرمین واپڈا محترم لیفٹنٹ جنرل غلام صفدر بٹ نے واضح کیا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں بجلی گھر بنا کر پہلے واپڈا تباہ ہو جائے گا اور پھر پاکستان کی معیشت کا جنازہ نکل جائے گا۔ 1987ء￿  میں جنرل بٹ کو فارغ کرنے کے بعد 1292میگاواٹ کے فرنس ا?ئل کے حبکو پاور کو پرائیویٹ سیکٹر میں منظور کیا گیا جو 1991? میں مکمل ہوا۔ اس دوران تربیلا ڈیم کی تیسری ٹنل کو موخر رکھا گیا۔ تیسری ٹنل پر کام 1991 میں شروع ہوا جو 1993 میں مکمل ہوا۔ ضروری تھا کہ پھر 1410 میگاواٹ کی چوتھی ٹنل پر کام شروع ہوتا لیکن 1994 میں تھوک کے حساب سے پرائیویٹ بجلی گھر (IPP's) کے منصوبے شروع کر دیئے گئے۔ 2002ء￿  میں IPP's کا دوسرا دور پرویز مشرف نے شروع کیا۔ 2008ء￿  میں پیپلز پارٹی کے دور میں رینٹل پاور کو شروع کیا گیا۔ اس دوران کسی نے تربیلا ڈیم کی چوتھی پر کام کرنے کی بات نہ کی۔ 2013ء￿  میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی یہ حالت تھی کہ لاہور میں بھی بجلی ایک گھنٹہ کے بعد دو گھنٹے کیلئے غائب ہو جاتی تھی۔ دیہاتوں میں تودن میں بمشکل دو تین گھنٹے ہی بجلی نظر ا?تی تھی۔ 2014 میں سی پیک کے تحت پھر IPP'S بنے، اس کے ساتھ ہی 1410میگاواٹ کی چوتھی ٹنل پر کام شروع ہوا جو 2018 میں مکمل ہوا۔ سی پیک (CPEC) کے تمام معاہدوں میں درج ہے کہ تعمیر کے 25 سال کے بعد یہ منصوبے صرف ایک روپے پاکستانی کرنسی پر قوم کی ملکیت ہوں گے۔ اس کے مقابلہ میں 1994 اور 2002 میں شروع کئے گئے IPP's کے معاہدے کسی تجوری میں بند رکھے ہیں۔ قوم کو علم نہیں کہ ان معاہدوں میں کیا لکھا ہے؟ البتہ عام شنید تھا کہ یہ معاہدے 25 سال کیلئے کئے گئے تھے۔ اس طرح 1994 میں شروع ہونے منصوبے تو 2019 میں 25 سال پورے کر گئے۔ قوم کو علم ہونا چاہئیے کہ ان منصوبوں کو پھر سے NOC کیوں جاری کیا گیا؟ 2022 میں تربیلا ڈیم کی 1530میگاواٹ کی پانچویں ٹنل پر کام شروع کیا گیا ہے۔ منگلا ڈیم پر بھی 310 میگاواٹ منصوبہ پر اضافی کام شروع ہے۔  
 خطہ کے ممالک میں بجلی کی پیداواری لاگت 9 سے 10سینٹ فی یونٹ ہے۔ چین میں ساڑھے چھ اور امریکہ میں پونے سات سینٹ کے قریب ہے۔ان کے مقابلہ میں پرائیویٹ بجلی گھروں کی وجہ سے پاکستان میں بجلی کی پیداواری لاگت 13سینٹ فی یونٹ تک جا پہنچی ہے۔ اس میں لائن لاسز کا شمار کیا جائے تو صارفین تک یہ بجلی تقریباً 48 روپے فی یونٹ علاوہ ٹیکس میں پڑتی ہے۔ عموماً اطلاعات ملتی ہیں کہ ان پرائیویٹ بجلی گھروں سے کبھی دس، کبھی بیس اور کبھی بجلی ہی نہیں لی جا رہی ہوتی تو پھر ان بجلی گھروں سے چھٹکارا کیوں نہ حاصل کیا جا رہا؟ اگر ا?ج بھی قومی مفاد میں پلاننگ کی جائے اور پرائیویٹ بجلی گھروں کا سختی سے ا?ڈٹ کیا جائے تو ان سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد 47 ہزار میگاواٹ تک جا پہنچی ہے۔ تیکنیکی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تو صارفین گرمیوں میں 35ہزار اور موسم سرما میں 25 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر ٹرانسمیشن نظام 20 ہزار میگاواٹ کی ڈیمانڈ پر پہنچ کر چلا اٹھتا ہے کہ بجلی بند کرو۔ ٹرانسمیشن نظام کو بہتر بنانے کیلئے فوری طور پر مٹیاری سے فیصل ا?باد اور حب سے کوٹ ادو HVDC کا چار چار ہزار میگاواٹ بجلی کی لائنوں پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے اگر کراچی اسٹیل کا صرف ایک یونٹ شروع کر دیا جائے جو بجلی کے پول اور تاروں کے علاوہ بڑے پیمانے پر ونڈ ملز اور سولر پراجیکٹ کے علاوہ پہاڑی علاقوں میں پلوں کے لئے اسٹیل سٹرکچر بنانے کا کام کرے تو صرف ایک سال میں بجلی کی پیداواری لاگت 13 سینٹ سے 9، تین سال میں 6  اور دس سال میں دو سے تین سینٹ فی یونٹ تک لا کر خطہ کے ممالک ہی نہیں بڑی قوتوں سے کہیں بہتر کارکردگی دکھا کر دنیا کے بڑی منڈیوں میں اپنا سکہ جما سکتے ہیں۔   

ای پیپر دی نیشن