دْنیا کی سیاست پر نظر رکھنے والے دانشوروں اور اَمن پسندوں کو اگر کوئی ایک تیزی سے آشکار ہوتی ہوئی حقیقت پریشان کر تی نظر آتی ہے تو وہ چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت اور مقابلے کی فضا ہے۔ آئے دِن کچھ نہ کچھ ایسا رْونما ہو جاتا ہے جس دونوں ممالک کے سرکاری بیانات میں شدت کا عنصر جھلکنا شروع ہوجاتاہے۔ دونوں بڑے ممالک سے بین الاقوامی اَمن کی اْمید لگائے دْنیا کے لیییہ مقابلے کی فضا اور مخاصمت بلا شبہ ایک بری خبر ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ اِ س مقابلے کی صورت میں دْنیا ایک بار پھر تقسیم کے دھانے پر جا کھڑی ہوگی۔ ایک با ر پھر سرد جنگ کی طرح کیمپیا بلاک وجود میں آسکتے ہیںیا دونوں مد مقابل طاقتیں چھوٹے ، غریب اور ترقی پذیر ممالک سے یہ توقع رکھیں گی کہ وہ اْن کے کیمپ میں داخل ہوجائیں جنہیں جبر کی دوستیاں اور مجبوریوں کی دشمنیاں بھی کرنا ہوں گی۔ ہمارے خطے کے لیے اور خصوصی طورپر پاکستان کے لیے بھی اِس مخاصمت کے منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ امریکی مفادات بھی اِس خطے کے ساتھ منسلک رہیں گے۔اور امریکہ کے لیییہ اہم ہے کہ خطے میں امریکی مفادات سے غفلت چین کے لیے میدان کھلا چھوڑنے کے مترادف ہو گا۔
چین اور امریکہ کی اِس مخاصمت پر دو طرح کی رائے پائی جاتی ہے۔ پہلی رائے یہ ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان جاری مقابلہ بہت جلد سنجیدہ ٹکرائوکی جانب بڑھے گا۔ اْس صورت میں نتائج خطرناک بھی ہوسکتے ہیں اور صورتِ حال کم سے کم سرد جنگ کی طرح کی ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ کی کیفیت شروع ہو چکی ہے جو صرف شدت اختیار کر ے گی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ چین اور امریکہ کا ایک دوسرے پر انحصار اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ وہ جنگ سے ہر صورت گریز کریں گے اور گمان ہے کہ دونوں ممالک کے سیاسی عمائدین مل بیٹھ کر کچھ ایسا سوچیں گے جس سے دونوں ملک باہم ترقی کی منازل طے کرسکیں اور مل کر دْنیا کے امن ، ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
اگر دونوں متضاد آراء پر غور کیا جائے تو کچھ نہ کچھ دونوں میں دْرست دکھائی د یگا۔ جو مکتبہ فکر یہ خیال کرتا ہے کہ چین اور امریکہ ایک جنگ یا کم از کم سرد جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں اْن کے بھی خدشات اور تاویل بھی دْرست دکھائی دیتی ہے۔ چین اور امریکہ مخاصمت 21ویں صدی کا سب سے بڑا واقعہ ہے اور یہ ایسا واقعہ ہے جس کے اثرات پوری دْنیا میں پوری دْنیا کے سیاسی ڈھانچے اور معاشی مستقبل کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ امریکہ نے جس انداز میںدوسری جنگِ عظیم کے بعد اپنے سیاسی اور معاشی ایجنڈے کی ترویج کی اْس نے امریکہ کی بین الاقوامی سیاسی اثر ورسوخ مثبت اور منفی انداز میں متاثر کیا۔دوسری جنگ ِعظیم کے بعد امریکہ نے دْنیا بھر میں مختلف ممالک میں فوجی اور سیاسی مداخلت کی جس کی وجہ سے امریکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور امریکہ کا ایک بڑی طاقت کے طور پر تشخص متاثر ہوا جس کی اقدار میں امن ، انصاف اور خوشحالی کا پرچار کرنا تھا۔ چین نے معاشی ترقی اِس لیے کی کہ چین نے گذشتہ چار دہائیوں میں اپنی توجہ صرف معیشت پہ مرکوز کی اور طے کیے گئے معاشی اہداف کو حاصل کیا۔ جبکہ امریکہ گذشتہ کئی دہائیوں سے دْنیا بھر میں ایسی جنگوں میں بین الاقوامی اخلاقیات اور اْصولوں کو پسِ پشت ڈال کر شریک ہوا کہ جن سے شاید بچا جا سکتا تھا یا کچھ سیاسی حل کی طرف جایا جاسکتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اور سرد جنگ میں کامیابی کے بعد امریکہ بلا شرکت غیرے دْنیا کی بڑی معیشت ، بڑی فوجی قوت اور دْنیا بھر میں انتہائی سیاسی اثر ورسوخ رکھنے والی بڑی طاقت کے طور پر اْبھرا۔ یہ بات اب واشنگٹن کے امریکی دانش کدوں میں بھی کہی جا رہی ہے کہ چین جب معیشت پر یکسوئی سے کام کر رہا تھا تو امریکہ اپنیوسائل کا بڑا حصہ بے معنی جنگوں میں پھونک رہا تھا۔ چین گزشتہ چار دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ دْنیا بھر میں مختلف معاشی منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ چین نے دنیا کو بی آر آئی جیسے منصوبوں سے روشناس کیا جس کی لاگت ایک کھرب ڈالر سے زائد ہے۔ چین نے معیشت، تجارت، سائنس اور ٹیکنالوجی اور زندگی کے ہر اہم شعبے کی ترقی کے لیے خصوصی سرمایہ کاری کی اوردْنیا کی بڑی معیشت بن کر امریکہ کی مسابقت میں سامنے آگیا۔
چین اور امریکہ کے ما بین جاری اِس مقابلے کے خد و خال واضح ہو رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں درمیان مقابلے کے چند عناصر ہیں: 1) معاشی ترقی کے لیے مارکیٹ سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش 2)چین خطے میں اپنی مسلح افواج کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے 3) خطے میں امریکہ اور چین کے سیاسی عزائم 4)چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ 5) امریکی قیادت میں چلنے والا ورلڈ آرڈر کے لیے اور دونوں ممالک کے درمیان نظریاتی اختلافات 6) دونوں ملکوں کا گورننس سسٹم، اقدار، جمہوریت، آزادی اظہار رائے7) اور سائبر سکیورٹی۔ دونوں ممالک خیال کرتے ہیں کہ اِن عناصر کی وجہ سے تنائو بڑھ رہا ہے۔
دوسری طرف ایک مکتبہ فکر کی یہ رائے ہے کہ امریکہ اور چین کا ایک دوسرے پہ اتنا انحصار ہے کہ ہلکی پھلکی سردی گرمی تو چلتی رہے دونوں ممالک کا یہ معاملہ جنگ یا سرد جنگ کی طرف نہیں جائے گا۔ امریکہ اور چین تجارت میں سب سے بڑے شرکت دار ہیں۔ دونوں ممالک الاقوامی تجارت کی تنظیموں کے رْکن بھی ہیں اور اْن میں فعال کردار بھی ادا کرتے ہیں۔دونو ں ممالک کا ایک مناسب سفارتی تعلق ہیں اور اکثر و بیشتر دونوں ممالک کے سرکاری ارکان ایک دوسرے سے باہمی اْمور پر گفتگو بھی کرتے ہیں۔دونوں ممالک اقوام ِ متحدہ کی سطح پر بین الاقوامی سکیورٹی، امن اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے کاموں میں بھی شراکت دار ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ امریکہ اور چین ایک دوسرے کے لیے بڑی تجارتی منڈیاں ہیں اور اِس کا فائدہ دونوں ممالک کو ہے۔ امریکہ سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کے لیے چین پر انحصار کرتا ہے۔ایسی صورت ِ حال میں دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے لیے ساتھ مل کر کام کرنے کا آپشن پر غور کرنا دونوں ممالک کے مفاد میں ہوگا۔
امریکہ اور چین میں مخاصمت میں اضافہ جنوبی ایشیاء کے لیے منفی اثرات کا حامل ہوگا جہاں پہلے ہی ہندوستان امریکہ کا اتحادی ہے اور ہندوستان اور پاکستان میں شدید تنائو کی کیفیت ہے۔یوں امریکہ اور چین کا مقابلہ جنوبی ایشیا میں نہ صرف علاقائی استحکام کے لیے خطرے کا باعث ہو گا بلکہ ایسی صورتِ حال میں پاکستان کے لیے بھی مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اِ س صورت میں اِسکے سوا کوئی آپشن نہیں کہ پاکستان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے کیلئے سفارتی کو ششیں جاری رکھے اور اپنے مفادات کی حفاظت کرے۔اور اِس وقت جب پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے جدوجہد ہو رہی ہے ہمیں سفارتی سطح پر دو جہتی معاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔1)ہمیں خطے (ہمسائے) میں تنائو کو کم کرنے پر غور کرنا چاہیے 2) بین الاقوامی سطح پر اپنے دوستوں میں اضافہ کرنیکی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم شاید آنے والے مشکل وقت کو ٹال نہ سکیں لیکن ہم دْور اندیشی اورپیش بندی سے اْس کے منفی اثرات کو بڑی حد تک زائل ضرور کرسکتے ہیں۔
٭…٭…٭