کیا بلاول بھٹو آج دوبارہ یہ نعرہ لگا سکتا ہے؟

ہمارے تعلیمی اداروں میں پروان چڑھنے والی نسل غیر سیاسی اور غیر نظریاتی ہے۔ ایسا ہونا اتفاقاً نہیں بلکہ یہ التزاماً ہے تاکہ یہ نوجوان اپنی بیروزگاری اور اگر کوئی روزگار مل جائے تو وہ اس میں استحصال کی ساختیاتی وجوہات پر غور نہ کر سکیں۔ کیا کسی درسی کتاب میں غربت کی وجوہات ڈسکس کی گئی ہیں؟ سورۃ رحمٰن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں کھول کھول کر بیان کرنے کے بعد 31مرتبہ جتلایا ہے کہ’تم اللہ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘۔ ایک سوال ہے کہ کیا یہ تمام نعمتیں تمام بندوں تک پہنچتی ہیں؟ اگر نہیں پہنچتیں توپھر خالق کی ان نعمتوں کی تخلیق کے بعد یقینا ترسیل میں کوئی کمی کوتاہی ہوگی۔ امجد اسلام امجد برسوں پہلے یہ سچائی بتا کر اپنے اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں:
خدا کا رزق تو ہر گز زمیں پہ کم نہیں یارو 
مگر یہ کاٹنے والے مگر یہ بانٹنے والے 
اسی باعث ایک شاعر اپنی بیچارگی اور بے بسی میں یہ کہتا پایا گیا:
رزق پتھر میں بھیجے والے 
میرے بچوں کی فیس رہتی ہے 
آج پاکستان کے کروڑوں عوام کو جس درجہ درماندگی اور زبوں حالی کا سامنا ہے، اس کا سبب تقدیر کا جبر یا دستیاب وسائل کی کمی ہرگز نہیں بلکہ یہ ایک خاص مراعات یافتہ طبقے کی لوٹ مار اور چیرہ دستیوں میں پنہاں ہے۔ ججوں، جرنیلوں، بڑے تاجروں، صنعتکاروں، زمینداروں اور حکمرانوں پر مشتمل یہ طبقہ ہمارے پیداواری عمل اور اسکے ماحصل کی تقسیم کے نظام کو مکمل طور پر یرغمال بنا چکا ہے۔ دستیاب وسائل اور مراعات کی تقسیم کے عمل میں ان گروہوں اور طبقات کی فیصلہ کی حیثیت میں معاشرہ کے نچلے طبقوں کی زندگیوں میں بہتری امید ایک دیوانے کا خواب ہی کہا جا سکتا ہے۔ 2021-22 میں وفاقی حکومت نے مختلف افراد اور کاروباری اداروں کو 1354.8ارب روپوں کی ٹیکس چھوٹ دی۔ 720.8ارب روپے کا فائدہ موافق قیمتوں اور 584.5 ارب روپے فائدہ ترجیحی رسائی کی شکل میں پہنچایا۔ اس طرح شدید ملکی مالی بحران کے باوجود حکومت پاکستان نے مختلف گروہوں کو 2660 ارب روپے کی مراعات دیں۔ پاکستان کی تشکیل میں کانگریسی رہنما پٹیل کااہم حصہ ہے۔ اس نے واضح طور پر اعلان کر دیا تھاکہ ہندوستان میں آزادی کے بعد سب سے پہلے جاگیروں کو ختم کر دیاجائیگا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی تمام مسلم جاگیرداروں نے جاگیریں بچانے کیلئے مسلم لیگ کا رخ کیا۔ وہ پاکستان کے قیام کیلئے نہیں صرف اپنی جاگیروں کی حفاظت کیلئے مسلم لیگ میں آئے تھے۔ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہے۔ آج ’جاگیرداری ٹھاہ‘یا زمین کی حد ملکیت مقرر کرنا صف اول کی کسی سیاسی جماعت کا نعرہ نہیں۔ ملک کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے۔ غربت کے خاتمہ کاکوئی حل جاگیرداری کے خاتمہ اور حد ملکیت مقرر کئے بغیر ممکن نہیں۔ غربت ہمارے سماجی منظر کا مستقل حصہ رہی ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً نصف خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر پوری ذمہ داری سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ غربت اور افلاس خالق نے اپنی مخلوق کیلئے پیدا نہیں کی۔ فیض خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والی ان ذلتوں کے مارے لوگوں کی یوں منظر کشی کرتے ہیں:
کِتے دھونس پولیس سرکار دی اے 
کِتے دھاندلی مال پٹوار دی اے 
انج ہڈاں وچ کلپے جان میری 
جیویں کھائی وچ کونج کرلاؤندی اے 
چنگا شاہ بنایا ای رب سائیاں 
پولے کھاؤندیاں وار نئیں آوندی 
زمین اللہ کی ہے تو پھر جو کچھ زمین کے اوپر ہے اس کی ہر شے کا مالک بھی اللہ ہے۔ جو کچھ زمین کے اندر ہے اس کا مالک بھی اللہ ہے۔ کسی شخص یا چند اشخاص کی مجال نہیں کہ وہ کسی بھی شے کی ملکیت کا دعویدار بنے۔ یہ زمین اللہ نے اپنی تخلیق کی گئی مخلوق کیلئے تخلیق کی ہے۔ 
2010ء کی زراعت شماری کے مطابق پاکستان میں کل 8.36ملین مالکان زمین ہیں۔ ان میں سے 67فیصدیعنی دو تہائی سے کچھ زیادہ 5ایکڑ سے کم زمین کے مالک ہیں۔ انکے پاس مجموعی طور پر 18 فیصد زرعی رقبہ ہے۔ دوسری طرف 100ایکڑ سے بڑے زمیندار ہیں جن کی تعداد محض 37000ہے لیکن وہ کل زرعی رقبے کے 20فیصد کے مالک ہیں۔ گویا پاکستان کے 37000بڑے زمینداروں کے پاس 5.6ملین چھوٹے کسانوں سے زیادہ رقبہ ہے۔ اگر 25ایکڑ سے زیادہ اراضی کے مالکان کو بڑا زمیندار گردانا جائے۔12.5ایکڑ سے کم مالک کو چھوٹا زمیندار اور 25-12.5ایکڑ کے مالکان کو درمیانہ زمیندار گردانا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 4فیصد بڑے زمینداروں کے پاس 41فیصد رقبہ ہے اور 90فیصد چھوٹے کسانوں کے پاس 43فیصد رقبہ ہے۔ بقیہ 6فیصد درمیانے درجے کے زمیندار ہیں۔ گویا زمین جیسے پیداواری اثاثے کے 40فیصد پر زمینداروں کا محض 4فیصد قابض ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف مالکان زمین کے ہیں۔ بے زمین کسان، زرعی مزدور اس میں شامل نہیں۔ کوئی بھی ریاست چار چیزوں پرمشتمل ہوتی ہے۔ ۱۔ خطہ زمین ۲۔ آبادی ۳۔ حکومت ۴۔ اقتدار اعلیٰ،جب تک ریاست کی زمین پر ان لوگوں کے حقوق کا تعین نہیں ہوگا جن کے نام ملک بھر میں کہیں بھی کاغذات مال کے خانہ ملکیت میں درج نہیں، شہریوں کی رہائش کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ نیز کسی بھی شہری کو ریاست کی زمین ارزاں نرخوں پر کیوں لیز پر دی جائے؟ 
بھوک، ننگ، افلاس کے خاتمہ کیلئے اللہ کے حضور گڑگڑانے والو!اللہ اپنی مخلوق کیلئے کب کی زمین پیدا کرچکااور یہی وسیلہ رزق ہے۔ لیکن 1999ء میں ہماری وفاقی شرعی عدالت نے فرد کے جائیداد پر حق کو مطلق قرار دیا ہے۔ نیز ریاست کے ملکیت کی حد مقرر کرنے اورکسی قسم کی مداخلت کرنے کو غیر شرعی قرار دیا ہے۔ ہماری شریعت میں ایک لفظ اجتہاد بھی ہے، جس کے تحت حضرت عمر فاروق نے قحط کے دنوں میں غلے کے چور کی ہاتھ کاٹنے کی سزا کو ساقط کر دیا تھا۔ ہمارے پیٹ بھرے ملا ں، قاضی اگر آج ملک میں قحط کے سے حالات نہیں سمجھتے تو وہ جانیں اور ان کا کام، ہم سیاسی بات یوں کرتے ہیں۔ اک زمانہ میں بھٹو اور بھٹو پارٹی کا مطلب ہی ’جاگیرداری ٹھاہ‘ اور’جیہڑا واہوے اوہوئی کھاوے‘ ہوا کرتا تھا۔ کیا بلاول بھٹو آج دوبارہ یہ نعرہ لگا سکتا ہے؟

ای پیپر دی نیشن