امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف اب تک کی سب سے کڑی اعلانیہ تنقید سامنے آگئی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ اسرائیلی حربوں کا مطلب معصوم شہریوں کی جانوں کا ہولناک نقصان ہے لیکن اسرائیل حماس کے رہنماؤں اور جنگجوؤں کو بے اثر کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یو صورت حال معاملات کو ایک مستقل بغاوت کی طرف لے جا سکتی ہے۔
دو ٹیلی ویژن انٹرویوز میں بلنکن نے زور دیا کہ امریکہ کا خیال ہے کہ اسرائیلی افواج کو غزہ سے نکل جانا چاہیے لیکن امریکا جنگ کے بعد خطے میں سلامتی اور حکمرانی کے لیے اسرائیل کی جانب سے قابل اعتماد منصوبوں کا انتظار کر رہا ہے
بلنکن نے مزید کہا کہ حماس غزہ کے کچھ حصوں میں دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ جنوبی شہر رفح میں اسرائیلی افواج کی جانب سے شدید کارروائی نے اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکہ کو اس لڑائی میں ساتھ چھوڑ دینے کی دھمکی دینے پر مجبور کردیا ہے۔بلنکن نے کہا کہ امریکہ نے غزہ میں سکیورٹی، گورننس اور تعمیر نو کے لیے قابل اعتبار منصوبے تیار کرنے کے لیے کئی ہفتوں سے عرب ممالک اور دیگر کے ساتھ کام کیا ہے لیکن ہم نے اسرائیل کی طرف سے ایسا کچھ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اسرائیل کی جانب سے بھی ایسا کچھ ہوتا ہوئے دیکھیں۔بلنکن نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل رفح میں اپنی کارروائی کو اندر تک دھکیل رہا ہے تو اس سے وہ کچھ ابتدائی کامیابی حاصل کر سکتا ہے لیکن اس سے آبادی کو سنگین نقصان کا خطرہ ہے۔ اس سے اس مسئلے کا حل نہیں ہوگا جو ہم دونوں چاہتے ہیں کہ حماس دوبارہ غزہ پر حکومت نہ کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ میں اسرائیل کے طرز عمل نے ملک کے ممکنہ طور پر ایسے راستے پر ڈال دیا ہے جہاں حماس کے بہت سے عسکریت پسند باقی رہیں گے اور شورش کو برقرار رکھیں گے۔بلنکن نے اس نئی رپورٹ کے نتائج کا اعادہ بھی کیا جو بائیڈن انتظامیہ نے جمعہ کو کانگریس کو بھیجی تھی۔ اس رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کی طرف سے امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں کا استعمال ممکنہ طور پر بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔