ہم کچھ کرتے نہیں ، اس کا یہ مطلب نہیں ، پتھر پھینکتے جاؤ: چیف جسٹس

May 13, 2024 | 16:41

ویب ڈیسک

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا، بس فون اٹھایا اور صحافی بن گئے کہ ہمارے ذرائع ہیں، کسی کے کوئی ذرائع نہیں، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکے جاؤ۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار راجہ شیر بلال، ابرار احمد اور ایم آصف ذاتی حیثیت میں عدالت پیش ہوئے۔درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائر کرنے سے ہی مکر گئے۔ درخواست گزاران کا موقف تھا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے آپ کے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کیے، کیا آپ بغیر اجازت درخواست دائر کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے؟ایڈووکیٹ آن ریکارڈ رفاقت حسین شاہ نے کہا کہ جس ایڈووکیٹ نے آن ریکارڈ کے ذریعے درخواست دائر کی ، ان کا انتقال ہو چکا ہے۔چیف جسٹس نے درخواست گزاروں کے وکیل حیدر وحید سے پوچھا کہ آپ کو صرف چکوال والے کلائنٹ ہی کیوں ملتے ہیں؟۔ ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے، پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر عدالت میں پیش ہو کر کہتے ہیں ، کیس ہی نہیں چلانا، ملک کو تباہ کرنے کیلئے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ وکیل کو اپنا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے، کون سا مشہور آدمی چکوال میں بیٹھا ہوا ہے، گالیاں دینی ہوں تو ہر کوئی شروع ہو جاتا ہے، کوئی سچ نہیں بولتا، ہم جانچ کیلئے معاملہ پنجاب فرانزک لیبارٹری کو بھجوا دیتے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں،ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ، بس پتھر پھینکتے جاؤ، بیرون ملک میں ایسا ہوتا تو ہتک عزت کیس میں جیبیں خالی ہو جاتیں۔

مزیدخبریں